عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی// کانگریس کے رہنما اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں دلت، آدیواسی اور او بی سی طبقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور اساتذہ سے ملاقات کی۔ اپنی ایکس پوسٹ میں انہوں نے بتایا کہ اس ملاقات کے دوران ان طلبہ اور اساتذہ نے اپنی زندگیوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا کرنے کے تجربات شیئر کیے۔راہل گاندھی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بابا صاحب ڈاکٹر بھیم را امبیڈکر نے جو راستہ دکھایا تھا، وہ آج بھی اثرانداز نہیں ہو سکا ہے۔ امبیڈکر کا پیغام تھا کہ تعلیم محروم طبقات کو بااختیار بنانے اور ذات پات کے امتیاز کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج بھی لاکھوں طلبہ ہمارے تعلیمی نظام میں اس طرح کی تفریق کا سامنا کر رہے ہیں۔راہل گاندھی نے اس موقع پر روہت ویمولا، پائل تڑوی اور درشن سولنکی جیسے باصلاحیت طلبہ کی جانیں جانے کی یاد دہانی کرائی۔ ان طلبہ کی موت ذات پات کے امتیاز کا سنگین نتیجہ تھیں۔اس سلسلہ میں راہل گاندھی نے کرناٹک کے وزیر اعلی سدارمیا کو خط لکھا ہا جس میں انہوں نے امتیاز کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کرناٹک میں روہت ویمولا ایکٹ کے نفاذ کا مطالبہ کیا تاکہ ہندوستان کے کسی بھی بچے کو وہ اذیت نہ جھیلنی پڑے جو روہت ویمولا اور بابا صاحب امبیڈکر جیسے رہنماں کو جھیلنی پڑی۔انہوں نے اپنے خط میں کرناٹک کے وزیر اعلی سدارمیا سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست میں اس ایکٹ کو نافذ کریں تاکہ دلت، آدیواسی اور او بی سی طلبہ کو تعلیم میں مکمل انصاف مل سکے اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا سدباب کیا جا سکے۔راہل گاندھی نے اپنے خط میں ڈاکٹر بھیم را امبیڈکر کے الفاظ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے کسی بھی بچے کو وہ ظلم نہیں سہنا چاہیے جو ڈاکٹر امبیڈکر اور ان جیسے لاکھوں افراد نے جھیلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ اس نوعیت کے واقعات کا سختی سے خاتمہ کیا جائے اور تعلیمی اداروں میں سماجی انصاف کی حقیقت کو یقینی بنایا جائے۔راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں دلت، آدیواسی اور او بی سی طبقے کے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کا مسئلہ کئی دہائیوں سے برقرار ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اس پر فوری طور پر کارروائی کرے تاکہ آئندہ کسی بچے کی زندگی ذات پات کے امتیاز کی بھینٹ نہ چڑھے۔