یو این آئی
لندن //برطانوی نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے حاصل کیے گئے 5 لاکھ ہتھیار ضائع ہو چکے ہیں، انہیں فروخت کیا جا چکا ہے یا عسکریت پسند گروہوں کو اسمگل کیا جا چکا ہے۔ایک سابق افغان اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان نے 2021 میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تقریباً 10 لاکھ ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔2021 میں جب طالبان نے افغانستان میں پیش قدمی کی تو بہت سے افغان فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے یا اپنے ہتھیار اور گاڑیاں چھوڑ کر فرار ہو گئے، کچھ ساز و سامان امریکی افواج چھوڑ گئی تھیں۔ان ہتھیاروں کے ذخیرے میں امریکی ساختہ اسلحہ، جیسے ایم 4 اور ایم 16 رائفلز کے ساتھ ساتھ افغانستان کے قبضے میں موجود دیگر پرانے ہتھیار بھی شامل تھے جو دہائیوں سے جاری لڑائی کے بعد وہاں رہ گئے تھے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال کے اواخر میں دوحہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی کمیٹی کے بند کمرا اجلاس میں طالبان نے اعتراف کیا تھا کہ ان میں سے کم از کم آدھے آلات اب غائب ہوچکے ہیں، کمیٹی کے ایک رکن نے کہا کہ انہوں نے دیگر ذرائع سے تصدیق کی ہے کہ 5 لاکھ اشیا کا علم نہیں ہے۔فروری میں اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور یمن کی انصار اللہ تحریک سمیت القاعدہ سے وابستہ تنظیمیں طالبان کے قبضے میں لیے گئے ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر رہی ہیں یا انہیں بلیک مارکیٹ سے خرید رہی ہیں۔یہ بات طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرات سے پوچھی جنہوں نے بتایا کہ وہ ہتھیاروں کے تحفظ اور ذخیرے کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں، تمام ہلکے اور بھاری ہتھیار محفوظ طریقے سے ذخیرہ کیے جاتے ہیں، ہم اسمگلنگ یا تباہی کے دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔2023 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے مقامی کمانڈروں کو ضبط شدہ امریکی ہتھیاروں کا 20 فیصد اپنے پاس رکھنے کی اجازت دی اور اس کے نتیجے میں بلیک مارکیٹ پھل پھول رہی ہے، یہ کمانڈر طالبان سے وابستہ ہیں لیکن اکثر انہیں اپنے علاقوں میں خود مختاری حاصل ہوتی ہے۔اقوام متحدہ نے نوٹ کیا کہ ’طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے مقامی کمانڈروں اور جنگجوؤں کے درمیان ہتھیاروں کا تحفہ دینے کا وسیع پیمانے پر رواج پایا جاتا ہے، بلیک مارکیٹ اب بھی طالبان کے لیے ہتھیاروں کا ایک بھرپور ذریعہ ہے‘۔قندھار شہر کے ایک سابق صحافی نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے قبضے کے بعد ایک سال تک وہاں کھلے ہتھیاروں کی ایک مارکیٹ موجود تھی، لیکن اس کے بعد میسجنگ سروس واٹس ایپ کے ذریعے اسے زیر زمین منتقل کر دیا گیا ہے، اس پر دولت مند افراد اور مقامی کمانڈر نئے ہتھیاروں کی تجارت کرتے ہیں اور امریکی ہتھیاروں اور سازوسامان کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر امریکی حمایت یافتہ افواج کے چھوڑے ہوئے ہتھیار ہیں۔افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبوں کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے ’سیگار‘ کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے ہتھیاروں کی تعداد ہمارے ذرائع کے حوالے سے ریکارڈ کیے گئے ہتھیاروں سے کم ہے، لیکن 2022 کی ایک رپورٹ میں تسلیم کیا گیا تھا کہ وہ درست معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ گزشتہ برسوں کے دوران مختلف امریکی محکموں اور تنظیموں کی طرف سے سازوسامان کی مالی اعانت اور فراہمی کی گئی ہے۔سیگار نے مزید کہا کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں آلات کو ٹریک کرنے کے لیے محکمہ دفاع کے طریقہ کار میں خامیاں اور مسائل موجود تھے۔بیان میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ریاست نے ہمیں اپنے پیچھے چھوڑے گئے آلات اور فنڈز کے بارے میں محدود، غلط اور بے وقت معلومات فراہم کیں۔‘ محکمہ نے اس بات سے انکار کیا کہ یہ معاملہ ہے۔یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے ہتھیار واپس لیں گے، ان کا کہنا تھا کہ وہاں 85 ارب ڈالر کے جدید ہتھیار رہ گئے ہیں۔افغانستان دنیا میں فوجی ساز و سامان بیچنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے، آپ جانتے ہیں کیوں؟ ٹرمپ نے نئی انتظامیہ کی کابینہ کے پہلے اجلاس کے دوران کہا کہ وہ، وہ سازوسامان فروخت کر رہے ہیں جو ہم نے چھوڑے تھے۔‘‘میں اس پر غور کرنا چاہتا ہوں. اگر ہمیں انہیں ادائیگی کرنے کی ضرورت ہے، تو یہ ٹھیک ہے، لیکن ہم اپنا فوجی سازوسامان واپس چاہتے ہیں۔صدر کے اعداد و شمار متنازع رہے ہیں کیونکہ افغانستان میں خرچ کی جانے والی رقم تربیت اور تنخواہوں کے لیے بھی خرچ کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے 25 بڑے ہتھیار برآمد کنندگان میں افغانستان بھی شامل نہیں تھا۔ٹرمپ کے بیان کے جواب میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان کے سرکاری ٹی وی کو بتایا تھا کہ ’ہم نے یہ ہتھیار پچھلی انتظامیہ سے حاصل کیے ہیں اور انہیں ملک کے دفاع اور کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کریں گے‘۔طالبان باقاعدگی سے امریکی ہتھیاروں کی پریڈ کرتے ہیں، بشمول بگرام ایئر فیلڈ جو امریکا اور نیٹو کا اہم اڈہ تھا، اور انہیں فتح اور قانونی حیثیت کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے۔سنہ 2021 میں انخلا کے بعد پینٹاگون نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان میں موجود امریکی سازوسامان ناکارہ ہو چکا ہے لیکن اس کے بعد طالبان نے امریکی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے ایک قابل فوج تیار کرلی ہے اور حریف گروہوں جیسے قومی مزاحمتی محاذ اور دولت اسلامیہ خراسان پر برتری حاصل کر لی ہے۔