بلال فرقانی
سرینگر//عالمی یومِ ورثہ کے موقع پر ماہرین تعمیرات اور ماحولیاتی ماہرین نے وادی کشمیر میں روایتی طرزِ تعمیر کے تیزی سے زوال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ جدید کنکریٹ عمارتیں نہ صرف موسمی حالات سے ہم آہنگ نہیں بلکہ کشمیری ثقافت کی صدیوں پرانی پہچان کو بھی مٹا رہی ہیں۔دنیا بھر میں18اپریل کو عالمی یوم ورثہ بنایا جاتا ہے۔امسال اس دن کیلئے’’آفات اور تنازعات سے ورثے کو لاحق خطرات: تیاری اور بین الاقوامی کونسل برائے آثارِ قدیمہ و مقامات(آئی کامس) کی 60 سالہ کوششوں سے سیکھنے کا عمل کا موضوع مقرر کیا گیا ہے‘‘۔وادی کے پرانے مکانات جن میں لکڑی، مٹی، پتھر اور دیودار کی لکڑی جیسے مقامی وسائل استعمال ہوتے تھے، صدیوں سے شدید سردیوں اور برفباری کا مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ ان گھروں کی چھتیں ڈھلوان دار ہوتی تھیں، جن پر سے برف آسانی سے پھسل جاتی تھی، جبکہ چھوٹے کھڑکیاں اور موٹی دیواریں حرارت کو اندر محفوظ رکھتی تھیں۔معروف معمار(آرکیٹیکٹ)بشیر احمد شاہ کا کہنا ہے کہ کہ یہ طرزِ تعمیر نہ صرف ماحول دوست تھی بلکہ توانائی کی بچت کا بھی ذریعہ تھی۔ان کا ماننا ہے کہ ان گھروں میں استعمال ہونے والی شیشم، اخروٹ اور دیودار کی لکڑی نہ صرف فنکارانہ نقش و نگار کے لیے موزوں تھی بلکہ زلزلہ جیسے قدرتی آفات میں بھی لچک دار ثابت ہوئی ہے۔تاہم پچھلی چند دہائیوں میں تعمیرات کے انداز میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔انہوں نے مزید کہا’’ جدید مکانات میں ہموار چھتیں، بڑی شیشے کی کھڑکیاں اور سٹیل و سیمنٹ کا بے تحاشا استعمال عام ہو گیا ہے، جو وادی کے مخصوص موسمی حالات کیلئے موزوں نہیں ہیں۔‘‘ ماحولیاتی کارکن ڈاکٹر میر مبشر شجاع کا کہنا ہے کہ پرانے کشمیری گھروں میں جو فنکارانہ مہارت، جیسے ’ختم بند‘ کی چھتیں اور ’پنجرہ کاری‘ کی کھڑکیاں شامل تھیں، وہ آج کے گھروں میں نظر نہیں آتیں۔ ان کی جگہ سادہ، بے روح ڈیزائن نے لے لی ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھ سکتے ہیں، مگر کشمیر کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ، جو محکمہ ثقافت کے انچارج بھی ہیں، نے حال ہی میں اسمبلی میں بتایا کہ اس وقت جموں میں 45 منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ 73 مزید منصوبوں کی نشاندہی فیز سکینڈ کے تحت کی گئی ہے، جن کا مقصد تاریخی قلعوں، مذہبی مقامات اور دیگر آثارِ قدیمہ کا تحفظ، بحالی اور دیکھ بھال ہے۔حکومت کی طرف سے تیار کیے گئے تفصیلی منصوبہ رپورٹوںمیں قلعے، مزارات، مندر، درگاہیں، قدیم عمارات اور دیگر تاریخی اہمیت کے مقامات شامل ہیں۔تاہم ایک اہم پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ فی الوقت کوئی بھی مرکزی حکومت کی طرف سے منظور شدہ ہیریٹیج کنزرویشن اسکیم نہ تو محکمہ ثقافت اور نہ ہی محکمہ سیاحت کی جانب سے جموں و کشمیر میں نافذ کی جا رہی ہے۔ اس انکشاف نے ماہرینِ ورثہ اور عوامی حلقوں میں تشویش کو جنم دیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست کی ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے صرف اعلانات کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔