مسعود محبوب خان
توبہ اور خود احتسابی ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ جب انسان اپنے اعمال پر غور کرتا ہے، اپنی کوتاہیوں کا احساس کرتا ہے، اور اللہ کی بارگاہ میں جھک کر معافی مانگتا ہے، تو یہ خود احتسابی کا بہترین مظہر ہوتا
ہے۔ خود احتسابی کا ایک اور اہم فائدہ تکبر سے بچنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النجم میں فرماتے ہیں: ’’تو تم خود اپنی جانوں کی پاکیزگی بیان نہ کرو، وہ خوب جانتا ہے اسے جو پرہیزگار ہوا‘‘ (النجم: 32)یہ آیت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ انسان کو خود ستائی اور غرور سے بچنا چاہیے اور اپنے اعمال کو اللہ کے میزان میں تولنے کے لیے ہمیشہ فکر مند رہنا چاہیے۔ خود احتسابی، دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ دنیا میں خود احتسابی سے انسان کی اصلاح ہوتی ہے، وہ اپنی غلطیوں کو پہچان کر بہتری کی طرف بڑھتا ہے۔ آخرت میں جو دنیا میں اپنا جائزہ لیتا ہے، اس کے لیے آخرت میں حساب آسان ہو جاتا ہے۔ خود احتسابی اور توبہ ایک مومن کے لیے کامیابی کی کنجی ہیں، جو شخص اپنی غلطیوں کو پہچان کر اللہ سے معافی مانگتا اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے، وہی حقیقی کامیاب ہے۔ ہمیں چاہیے کہ غرور سے بچیں، ہر وقت اپنا محاسبہ کریں اور اللہ کی رحمت کے طلبگار بنیں۔خود احتسابی نہ صرف فرد کی اصلاح کا ذریعہ ہے بلکہ معاشرتی بہتری کی بنیاد بھی ہے۔ قرآن و حدیث میں ہمیں اس کی اہمیت اور اس کے اثرات پر بارہا غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’بے شک مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘ (سنن الکبریٰ للبیہقی: 21301)یہ حدیث اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد اخلاق کی بلندی ہے اور خود احتسابی اس کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔ جب انسان روزانہ اپنے اخلاق، معاملات اور رویوں کا جائزہ لیتا ہے، تو وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کر سکتا ہے۔حلم، صبر، صداقت، امانت اور انصاف جیسے اوصاف خود احتسابی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ظلم، ناانصافی، بے ایمانی اور بدعنوانی جیسی برائیاں تب ہی ختم ہو سکتی ہیں جب ہر شخص اپنا محاسبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے۔ مثلاً اگر ایک تاجر خود احتسابی سے کام لے اور ایمانداری اپنائے تو پورے بازار میں اعتماد پیدا ہوگا۔ اگر ایک عالم یا استاد اپنی نیت، علم اور طریقہ تدریس کا خود محاسبہ کرے تو علم کا معیار بلند ہوگا۔ خود احتسابی فرد اور معاشرے کی ترقی کی کنجی ہے۔ یہ اخلاقی بہتری، معاشرتی فلاح اور دینی ترقی کا ذریعہ ہے۔ جو قومیں اجتماعی طور پر خود احتسابی کی عادی ہوتی ہیں، وہی دنیا میں ترقی اور فلاح پاتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ روزانہ اپنے اخلاق، رویے اور کردار پر غور کریں اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں، کیونکہ یہی حقیقی کامیابی ہے۔
خود احتسابی ایک مسلسل اور مستقل عمل ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ انسان کو اپنی کوتاہیوں کا احساس دلاتا ہے اور اسے بہتری کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ جب انسان اپنی کمزوریوں اور گناہوں پر غور کرتا ہے، تو اس کے اندر عاجزی اور انکساری پیدا ہوتی ہے۔ وہ خودپسندی اور تکبر سے بچتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی صرف اللہ کی رحمت سے ممکن ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے۔‘‘ (ترمذی: 2459)۔ یعنی جو اپنے اعمال کا محاسبہ کر کے نیکیوں میں اضافہ اور گناہوں سے توبہ کرتا ہے، وہی حقیقت میں عقل مند ہے۔جو شخص اپنے اعمال کی اصلاح کرتا ہے، وہ دنیا میں عزت اور کامیابی پاتا ہے۔ معاشرے میں ایمانداری، دیانت داری اور خیر خواہی فروغ پاتی ہے۔ آخرت میں حساب آسان ہوگا اور اللہ کی رضا نصیب ہوگی۔ خود احتسابی ہر مسلمان کی زندگی کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔ یہ اصلاحِ نفس، روحانی ترقی اور معاشرتی بہتری کا ذریعہ ہے۔ اللہ کی رحمت سے امید اور مسلسل اصلاح ہی ہمیں دنیا و آخرت میں سرخرو کر سکتی ہے۔ ہمیں روزانہ اپنے اعمال، نیتوں اور کردار پر غور کرنا چاہیے تاکہ اللہ کے قریب ہو سکیں اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے خود احتسابی ایک ایسا لازمی عمل ہے جو انسان کو نہ صرف دنیا میں بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے بلکہ آخرت کی کامیابی کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا ہے، اپنی غلطیوں کو پہچان کر ان کی اصلاح کرتا ہے اور اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے، وہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اس کی رحمت و مغفرت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
خود احتسابی کی برکت سے انسان کے اندر عاجزی، خوفِ خدا اور نیکی کی جستجو بڑھتی ہے جو ایک صالح معاشرے کی بنیاد رکھتی ہے۔ یہ عمل ہمیں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی، اپنے فرائض کی انجام دہی اور اخلاقی و روحانی پاکیزگی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول ’’اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے‘‘ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ خود احتسابی ہی قیامت کے دن کے سخت حساب سے نجات کا ذریعہ ہے۔ لہٰذاایک سچے مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کا مسلسل جائزہ لیتا رہے، اپنی کوتاہیوں کو پہچان کر ان کی اصلاح کرے اور اللّٰہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔ خود احتسابی کا یہ عمل نہ صرف فرد کی نجات کا ذریعہ ہے بلکہ ایک صالح اور پُرامن اسلامی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد بھی ہے۔ اللہ ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جو اپنی غلطیوں کو پہچان کر توبہ کرتے ہیں اور اپنے اعمال کو بہتر بناتے ہیں۔ آمین
رابطہ۔9422724040
[email protected]