مختار احمد قریشی
نیکی اور بدی انسان کی زندگی کے دو پہلو ہیں، جن کے درمیان ہر لمحہ ایک جنگ جاری رہتی ہے۔ ہر انسان کے دل میں ایک آواز ہوتی ہے جو اُسے نیکی کی طرف بلاتی ہے اور دوسری جو اُسے بدی کی راہ پر ڈالنا چاہتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کون سی آواز زیادہ زور پکڑتی ہے۔نیکی وہ روشنی ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے، جبکہ بدی وہ اندھیرا ہے جو اس روشنی کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ نیکی میں قربانی، ایثار، سچائی اور محبت شامل ہے، جبکہ بدی میں خودغرضی، جھوٹ، نفرت اور ظلم۔ ایک شخص جب سچ بولتا ہے، کسی کی مدد کرتا ہے، بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے یا یتیم کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے تو وہ نیکی کرتا ہے۔ لیکن جب وہ جھوٹ بولتا ہے، کسی کو تکلیف دیتا ہے یا دوسروں کے حق پر ڈاکا ڈالتا ہے تو وہ بدی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔نیکی کا پھل دیر سے سہی مگر میٹھا ہوتا ہے، جبکہ بدی وقتی فائدہ دے سکتی ہے ، آخرکار نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔انسان کو روزمرہ زندگی میں بارہا ایسے مواقع میسر آتے ہیں جہاں اُسے نیکی یا بدی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات بدی آسان لگتی ہے اور نیکی مشکل، لیکن جو شخص صبر اور استقلال سے نیکی کا راستہ چنتا ہے، وہی کامیاب ہوتا ہے۔
انسانی ضمیر سب سے پہلا قاضی ہوتا ہے جو نیکی اور بدی میں فرق کرتا ہے۔ ضمیر کی آواز خاموش تو ہو سکتی ہے، لیکن وہ کبھی مرتی نہیں۔ بچپن سے ہی ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا غلط ہے، سچ بولنا اچھا ہے۔ یہی تربیت ہمارے ذہن میں نیکی اور بدی کے بنیادی تصور کو پروان چڑھاتی ہے۔ماں جب بچے کو کھلانے کے لئےدوسروں کی خدمت کا قصہ سناتی ہے تو نیکی کی پہلی جھلک بچے کے ذہن میں ابھرتی ہے۔ اسی طرح جب بچہ دیکھتا ہے کہ کوئی دوسرا بچہ چیخ کر کسی کا کھلونا چھین لیتا ہے تو اُسے بدی کا احساس ہوتا ہے۔بدی ہمیشہ شور مچاتی ہے، لیکن نیکی خاموشی سے کام کرتی ہے۔ بدی اکثر لالچ کے بھیس میں آتی ہے۔ کبھی دولت، کبھی شہرت، کبھی طاقت۔ ایک شخص کو پیشکش کی جاتی ہے کہ وہ سچ کو چھپا لے اور بدلے میں فائدہ حاصل کرے، لیکن اگر وہ ایمان دار ہے تو وہ بدی کو ٹھکرا دیتا ہے، یہی نیکی کی جیت ہے۔نیکی کا سفر کبھی آسان نہیں ہوتا۔ یہ قربانی مانگتا ہے، وقت مانگتا ہے، کبھی کبھی تنہائی بھی دیتا ہے۔ لیکن بدی کا انجام ہمیشہ پچھتاوا ہوتا ہے، ایک چور چاہے کتنی بھی بار چوری میں کامیاب ہو جائے، اُس کا ضمیر ایک نہ ایک دن اُسے پکڑ ہی لیتا ہے۔نیکی صرف عبادت تک محدود نہیں، کسی کو معاف کرنا نیکی ہے، کسی کو عزت دینا نیکی ہے، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے محبت نیکی ہے اور بدی صرف قتل یا چوری نہیں، حسد، تکبر، غیبت، دل آزاری یہ سب بدی کی اقسام ہیں۔
جب معاشرہ نیکی کو کمزور اور بدی کو طاقتور سمجھنے لگتا ہے، تب تباہی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ بدی کو اگر بروقت نہ روکا جائے تو وہ آہستہ آہستہ دلوں کو سیاہ کر دیتی ہے۔
نیکی کرنے والے اکثر نظر انداز ہوتے ہیں، لیکن ان کی موجودگی ہی معاشرے کی روح کو زندہ رکھتی ہے۔ اگر ایک اُستاد اپنے طلبہ میں سچائی اور محنت کی اہمیت اُجاگر کرتا ہے تو وہ ایک نسل کو نیکی کا سبق دے رہا ہوتا ہے۔ یہی نیکی کی طاقت ہے جو خاموشی سے دنیا بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔نیکی ایک ایسا احساس ہے جو انسان کے دل کو نرم کر دیتا ہے۔ نیک انسان کی پہچان اس کے کردار سے ہوتی ہے نہ کہ اس کے لباس یا دولت سے۔ وہ دوسروں کے لیے جیتا ہے، دوسروں کی تکلیف محسوس کرتا ہے اور اپنی ذات کو دوسروں کی بہتری کے لیے وقف کر دیتا ہے۔نیکی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ دوسروں کی اصلاح کے لیے اپنی خاموشی سے بھی اثر ڈالتی ہے۔ ایک نیک شخص اگر غلط ماحول میں بھی ہو تو اُس کی موجودگی ایک پیغام ہوتی ہے کہ روشنی اب بھی زندہ ہے۔بدی کی فطرت میں فریب ہوتا ہے، وہ انسان کو دھوکے میں ڈالتی ہے کہ یہ وقتی فائدہ اصل کامیابی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بدی کا پردہ چاک ہو جاتا ہے اور انسان خود اپنی بداعمالیوں کا قیدی بن جاتا ہے۔روحانی طور پر نیکی دل کو سکون عطا کرتی ہے۔ نیکی کرنے والا شخص سوتے وقت ضمیر کی آواز سے پریشان نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ اُس نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا، کسی کا حق نہیں چھینااور یہی اُس کی روحانی طاقت ہے۔بدی روحانی لحاظ سے انسان کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ جھوٹ، فریب، حسد اور نفرت انسان کے دل کو گندہ کر دیتے ہیں اور پھر وہ شخص ہر رشتے سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
نیکی کا اثر سماج پر بھی پڑتا ہے۔ اگر ایک محلہ میں ایک شخص دوسروں کی مدد شروع کرے تو آہستہ آہستہ پورے علاقے میں بھائی چارے کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ نیکی پھیلتی ہے اور بدی بھی، لیکن نیکی کی خوشبو دیرپا ہوتی ہے۔معاشرتی بدی کی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ رشوت، اقربا پروری، جھوٹے مقدمات، حسد، غیبت، جھوٹا پروپیگنڈا، یہ سب بدی کے دائرے میں آتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان برائیوں کے خلاف آواز بلند کرے تو وہ ایک نیک کام کر رہا ہوتا ہے۔انسان کو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ کہیں اس کے الفاظ یا عمل سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچی۔ یہ خود احتسابی نیکی کی طرف پہلا قدم ہے۔بدی اکثر اس وقت پھیلتی ہے جب نیک لوگ خاموش ہو جائیں۔ ظلم سہنا بھی کسی حد تک ظلم کی تائید ہوتی ہے۔ لہٰذا نیکی کا تقاضا ہے کہ بدی کے خلاف آواز بلند کی جائے، چاہے وہ کتنا ہی خطرناک لگے۔نیکی صرف اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے ہوتی ہے۔ جب ایک انسان دوسروں کے بھلے کے لیے کام کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس کی مدد فرماتا ہے۔
رابطہ۔18082403001
[email protected]