خان محمد یاسر اشرف
زندگی کی پُراسرار اور پیچیدہ راہوں میں کچھ تعلقات ایسے موڑ مڑ لیتے ہیں جہاں رشتہ قائم تو رہتا ہے، مگر اس کی روح کہیں پیچھے چھوٹ جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی لاکھوں عورتیں ایسی ہی راہوں پر چل رہی ہیں۔ ان کے ماتھے پر ’’بیوی‘‘ کا تاج ہے، ان کی گود میں ’’ماں‘‘ کا درجہ ہے، مگر دل کے اندر ایک ایسی خاموش چیخ ہے جو صرف وہی سن سکتی ہیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں جو بظاہر اپنے شوہروں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں مگر حقیقت میں صرف اپنے بچوں کے باپ کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔یہ جملہ محض ایک فقرہ نہیں بلکہ ایک پوری نسل کی خاموش داستان ہے۔عورت جب شادی کرتی ہے تو وہ صرف ایک گھر کی دہلیز پار نہیں کرتی بلکہ اپنے وجود، خوابوں، خواہشوں اور احساسات کی ایک نئی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ وہ محبت، اپنائیت، ہم آہنگی اور رفاقت کی امید لئے ایک مرد کے نام سے جڑتی ہے۔ مگر وقت، رویّے اور بے حسی جب اس رشتے کو کھوکھلا کر دیتی ہے تو وہ عورت تنہا ہو جاتی ہے — نہ اکیلی، نہ مکمل جُڑی ہوئی بلکہ ایک عجیب سی حالت میں معلق۔اس کا شوہر اب اُس کا ساتھی نہیں رہا، نہ دل کا ہمراز نہ ذہن کا ہم خیال، مگر وہ رشتہ پھر بھی قائم ہے، صرف اس لئے کہ اس میں ’’بچے‘‘ شامل ہو چکے ہیں۔بچوں کی خاطر وہ عورت وہ سب کچھ سہتی ہے جو شاید اس کے اپنے وجود کو اندر ہی اندر توڑ رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے جذبات کا قتل کرتی ہے، اپنے خوابوں کو دفن کرتی ہے، صرف اس لئے کہ بچے ماں باپ کے ساتھ پلیں، معاشرہ انہیں ’’مکمل خاندان‘‘ کا فرد سمجھے اور وہ طعنوں، سوالوں اور تنقید سے بچی رہے۔ یہ قربانی آسان نہیں — یہ اپنے اندر جینا دفن کرنا ہے۔
معاشرتی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس رویّے کی جڑیں ہمارے خاندانی نظام اور سماجی اقدار میں پیوست ہیں۔ عورت کو ہمیشہ سے ’’سمجھوتے‘‘ کا استعارہ سمجھا گیا ہے۔ مرد کی بے توجہی، سرد رویّہ، تذلیل یا حتیٰ کہ جذباتی تشدد بھی اکثر عورت کے لیے ’’نثار ہو جانے‘‘ کے دائرے میں آتا ہے۔ اسے سکھایا جاتا ہے کہ وہ ہر حال میں گھر بچائے، شوہر کا مان رکھے، بچوں کی خاطر خود کو فنا کر دے اور وہ ایسا کرتی ہے — خاموشی سے، شکایت کے بغیر، آنکھوں میں پانی اور لبوں پر مسکراہٹ لئے۔یہ سوال اہم ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ کیا ایک عورت صرف ماں ہونے کے سبب، اپنی ذات سے دستبردار ہو جائے؟ کیا شوہر اور بیوی کے رشتے میں صرف بچوں کی موجودگی ہی کافی ہے؟ کیا مرد کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ بیوی کے جذباتی وجود کو بھی سمجھے، اس کے دل کی زبان سُنے، اس کے ساتھ رشتہ صرف جسمانی یا قانونی حد تک نہ رکھے بلکہ روحانی و ذہنی ہم آہنگی بھی پیدا کرے؟
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ خود عورت کو بھی اپنی اہمیت کا ادراک ہونا چاہیے۔ وہ اگر اپنے درد کو معمول سمجھ کر سہتی رہے گی تو اس کے وجود کی بے قدری ایک روایت بن جائے گی۔ عورت کو اس خاموش سمجھوتے سے نکل کر سوال اٹھانا ہوگا — محبت، عزت اور توجہ اس کا بھی حق ہے۔
ہمیں معاشرے کے رویّوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ شادی کو صرف سماجی بندھن نہ سمجھا جائے بلکہ اسے دو انسانوں کے درمیان ایک زندہ، سانس لیتا، محسوس کرتا رشتہ سمجھا جائے۔ مرد کو یہ سکھایا جائے کہ بیوی صرف بچے پیدا کرنے والی مشین نہیں بلکہ ایک حساس انسان ہے جو توجہ، محبت اور رفاقت کی طالب ہے۔ورنہ یہ معاشرہ ایسے گھروں سے بھرتا جائے گا جہاں دیواریں تو کھڑی ہیں مگر رشتے ڈھے چکے ہیں، جہاں عورتیں شوہر کے ساتھ تو ہیں لیکن تعلق صرف بچوں کے باپ کے ساتھ نبھایا جا رہا ہے۔
یہ تحریر صرف ایک سچ کو بیان کرنے کی کوشش ہے — وہ سچ جو ہر دوسرے گھر میں موجود ہے، مگر جسے زبان دینا، ہمارے سماجی ڈھانچے میں ’’بغاوت‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں، ہر خاموشی ضروری نہیں کہ رضامندی ہو اور ہر سمجھوتہ عظمت کی علامت نہیں ہوتا۔ بعض اوقات خاموش عورتیں معاشرے کی سب سے بلند چیخ ہوتی ہیں — بس! ہم سننا نہیں چاہتے۔
رابطہ ۔9881296564
[email protected]