عظمیٰ ویب ڈیسک
نئی دہلی/سپریم کورٹ نے نئے وقف قانون کے خلاف عرضداشتوں کے سلسلے میں آج تفصیلی سماعت کی اور حکومت کو اس قانون کے کچھ ضابطوں کے بارے میں سخت سوالات کئے اور اگلی سماعت کے لئے کل کا دن مقرر کیا سہ رکنی بینچ جس کی قیادت چیف جسٹس سنجیو کھنہ کر رہے تھے، نے بحث کے دوران حکومت سے کہا کہ کیا وہ دوسرے مذہبوں کے ٹرسٹوں میں بھی مسلمانوں نمائندگی دے گی۔
اس نے کہاکہ جو وقف جائدادیں سینکڑوں سال پرانی ہیں، ان کے پاس رجسٹریشن کیسے ہوگی اور اس قانون کے مختلف ضابطوں پر سوالیہ نشان قائم کیا۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ یہ قانون دستور کے مطابق ہے۔ حکومت کے وکیل سالییسٹر جنرل تشار مہتا نے کہاکہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اس قانون کے بارے میں تفصیلی جائزہ لیا۔
نوے لاکھ سے زیادہ پٹیشنز موصول ہوئے اور ان کی جانچ بھی کی گئی۔ مشترکہ کمیٹی میں بھی اس پر تفصیلی بحث ہوئی اور یہ طے پایا گیا کہ یہ ملک کے آئین کے کسی بھی شق خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے اس کا مقصد وقف جائداد کا صیح طور پر استعمال ہے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے مختلف عرضیوں اور پٹیشن کی سماعت شروع کی۔ اس متنازعہ قانون پر سینئر وکیل کپل سبل نے مسلم تنظیموں کی طرف سے دلائل پیش کرتے ہوئے کہاکہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو ممبر نامزد کرنا دستور کے آرٹیکل اور شق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی مذہب کی وراثت میں مداخلت کرے۔ لیکن اس موقع پر چیف جسٹس کھنہ نے کہاکہ ایسا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آرٹیکل کی شق نمبر 26سیکولرازم کی عکاسی کر رہی ہے اور یہ سبھوں پر عائد ہوتی ہے۔
اس موقع پر کپل سبل نے کہاکہ وقف کا مقصد یہ ہے کہ کسی جائداد یا زمین کو فلاحی کاموں کے لئے وقف کرسکے۔ یہ ریاست کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عقیدت سے وابستہ ہے۔چیف جسٹس کے علاوہ اس مقدمے کی سماعت جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وشوناتھن بھی کررہے ہیں۔
اس قانون کے خلاف عدالت عظمی میں 30سے زائد عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ جن میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے وقف قانون میں ترمیم کرکے ایک مخصوص مذہبی فرقے کے ساتھ امتیازی اختیار کیا ہے۔اس قانون کی حمایت میں بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے بھی اپیل دائر کی ہے اور کہا کہ یہ قانون دستور کے مطابق ہے اور اسے برقرار رکھا جائے۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیتہ علمائے ہند (الف)جمعیتہ علمائے ہند (م)، اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا، ٹی ایم سی کے رکن پارلیمان مہوا موئترا، دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) پارٹی، انڈین یونین مسلم لیگ، وائی ایس آر سی پارٹی، سمستھا کیرالہ کے ایم ایل اے ایس پی کے ایم پی ضیا,لرحمان برق۔دہلی کے ایم ایل اے امانت اللہ خاں، مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے اللہ خان، جامع مسجد بنگلورو کے امام، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ٹی وی کے کے صدر اور تمل اداکار وجے، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس وغیرہ، درخواست گزاروں میں سے کچھ ہیں۔
راجستھان، گجرات، ہریانہ، مہاراشٹر، آسام، اتراکھنڈ اور چھتیس گڑھ کی ریاستوں نے ایکٹ کی حمایت میں مداخلت کی درخواستیں دائر کی ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی ایک کیویٹ داخل کیا ہے۔
اس کے علاوہ ہندو سینا کے وکیل برون کمار سہنا نے وقف ترمیمی قانون کی حمایت میں عرضی داخل کی ہے۔