ٹی ای این
سرینگر// کشمیر بھر کے باغبان اپنے سیب کے باغات میں پھلوں کے سیٹ کو بہتر بنانے کی امید میں تیزی سے پلانٹ گروتھ ریگولیٹرز کی طرف رجوع کر رہے ہیں، باوجود اس کے کہ ان کیمیکلز کو شیرِ کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹکنالوجی یا محکمہ ہارٹیکلچر کی طرف سے سرکاری منظوری یا سائنسی توثیق نہیں ہے۔وادی میں موسم بہار کی واپسی کے ساتھ ہی، کسان ہزاروں ایکڑ باغات میں گروتھ ریگولیٹرز کے چھڑکاؤ پر کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مصنوعی ہارمون پھلوں کی بہتر تشکیل اور زیادہ پیداوار کو فروغ دیتے ہیں۔ پھر بھی، اس بڑھتے ہوئے رجحان کے درمیان، تجربہ کار کاشتکاروں اور باغبانی کے سائنسدانوں میں احتیاط کی آوازیں برقرار ہیں۔سکاسٹ کے ایک سینئر سائنسدان نے بتایاکہ اس وقت مقامی مارکیٹ میں گروتھ ریگولیٹرز کے دو سے زیادہ برانڈز دستیاب ہیںلیکن ان میں سے کسی کو بھی سرکاری طور پرسکاسٹ یا محکمہ باغبانی کے استعمال کے لیے تجویز نہیں کیا گیا ہے۔شوپیاں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار پھل کاشتکار ان مادوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ انہوںنے خبردار کیا کہ ان کیمیکلز کا طویل مدتی استعمال باغات کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ سال بہ سال ان کا استعمال درختوں کو ختم اور غیر پیداواری چھوڑ سکتا ہے۔ آخر کار پیداوار میں تیزی سے کمی آتی ہے۔ان مختلف تجربات کے درمیان باغبان حکومت اور تحقیقی اداروں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مداخلت کریں اور واضح رہنما خطوط جاری کریں۔ ایک کاشتکار نے کہاکہ ’’حکام کی خاموشی پریشان کن ہے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آیا ان کیمیکلز کا استعمال ہمارے باغات کی طویل مدتی صحت کے لیے محفوظ ہے‘‘۔کسانوں کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کی کم پیداوار کی وجہ سے کاشتکاروں کی اکثریت بہتر نتائج کی امید میں اس سیزن میں PGR کا سپرے کر رہی ہے۔تاہم ماہرین انتہائی احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔