کڑوا سچ
ڈاکٹرریاض احمد
ہندوستانی اور برصغیری معاشروں میں ایک عام رویہ پایا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، کوئی نیا خیال پیش کرتا ہے یا کوئی بڑی کامیابی حاصل کرتا ہےتو بجائے اس کے کہ لوگ اس کی حوصلہ افزائی کریں، وہ اسے تنقید، مزاح یا مخالفت کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ رجحان جسے کیکڑے کی ذہنیت کہا جاتا ہے، ایک سماجی رویہ ہے جس میں لوگ دوسروں کو اوپر بڑھنے سے روکتے ہیں بالکل جیسے بالٹی میں موجود کیکڑے ایک دوسرے کو اوپر چڑھنے نہیں دیتے۔یہ رجحان برصغیر کی تاریخ میں بارہا دہرایا گیا ہے، جہاں کئی نامور شخصیات کو عوامی یا سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، صرف اس لئے کہ انہوں نے رائج نظام کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی جڑیں کہاں پیوستہ ہیں اور ہم اس سے کیسے نجات حاصل کر سکتے ہیں؟
دوسروں کو نیچے کھینچنے کی نفسیات: ۔
یہ رویہ کئی نفسیاتی، سماجی اور ثقافتی عوامل پر مشتمل ہوتا ہے۔حسد اور احساسِ محرومی – اُردو شاعری میں ایک زہر قرار دیا گیا ہے جو صرف حسد کرنے والے کو نقصان پہنچاتا ہے، مگر یہ سچ ہے کہ حسد کی آگ میں جلنے والے دوسروں کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔تقدیر پرستی اور قسمت کا غلط تصور – ہمارے معاشرے میں یہ سوچ عام ہے کہ جو کامیاب ہوا، وہ یا تو قسمت کا دھنی تھا یا اس نے کوئی غیر اخلاقی طریقہ اپنایا ہوگا، بجائے اس کے کہ اس کی محنت اور صلاحیت کو تسلیم کیا جائے۔اجتماعی سوچ اور روایتی مزاحمت – ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ ’’جو سر اٹھاتا ہے اُسے کچل دیا جاتا ہے۔‘‘ یعنی جو شخص عام دھارے سے ہٹ کر کچھ نیا کرنے کی کوشش کرے، وہ مخالفت کا سامنا کرے گا۔قومی اور تاریخی پسِ منظر – غلامی کے طویل دور نے ہمیں ایک ایسا ذہنی رویہ دیا، جس میں ہم خود کو کمتر سمجھتے ہیں اور کسی کو اوپر جاتا دیکھ کر اسے کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بین الاقوامی مثالیں : ۔
علامہ اقبال – برصغیر کے عظیم شاعر اور فلسفی، جنہیں ابتدا میں ان کے خیالات کی وجہ سے مسترد کیا گیا، لیکن بعد میں ان کی سوچ نے ایک نئی قوم کی بنیاد رکھ دی۔گلیلیو گلیلی – جب انہوں نے سائنسی حقیقت بیان کی کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو انہیں چرچ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔نکولا ٹیسلا – ایک عظیم موجد، جنہیں کاروباری رقابت اور سازشوں نے ناکام بنانے کی کوشش کی۔
مولانا ابوالکلام آزاد – آزادیِ ہند کے ایک بڑے رہنما، مگر ان کے خیالات کو اکثر نظرانداز کیا گیا اور ان کی سیاسی بصیرت کا صحیح اندازہ بعد میں ہوا۔ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر – جنہوں نے دلتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی، مگر انہیں سیاسی اور سماجی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔سر سید احمد خان نے – جب مسلمانوں میں جدید تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش کی، تو انہیں ’’کافر‘‘ اور ’’مغربی غلام‘‘ کہا گیا، مگر بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کی بصیرت کو ثابت کر دیا۔
فیض احمد فیض – ایک انقلابی شاعر، جنہیں ان کے نظریات کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسفزئی – دونوں نے بچوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کی مگر اپنے ہی ملکوں میں ان پر بے جا تنقید کی گئی۔دھیرو بھائی امبانی – ریلائنس انڈسٹریز کے بانی، جنہیں ابتدا میں کاروباری حلقوں میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، مگر انہوں نے ہندوستان کی سب سے بڑی کمپنی قائم کر دی۔میری کوم اور پی ٹی اوشا – انڈیا کی بہترین کھلاڑی، جنہیں وسائل اور سپورٹ کی کمی کے باوجود اپنی محنت سے دنیا میں نام بنانا پڑا۔
وکرم سارا بھائی اور اسرو کے سائنسدان – جب ہندوستان نے خلائی تحقیق کا آغاز کیا تو ملک کے اندر ہی کئی لوگ اسے ناممکن سمجھ رہے تھے، مگر آج بھارت خلائی سائنس میں عالمی طاقت بن چکا ہے۔
برصغیر کی ثقافت میں حسد اور مخالفت کی جڑیں: ۔
ہمارے ادب، کہانیوں اور روزمرہ محاوروں میں اس رویے کی عکاسی ہوتی ہے۔ اردو ادب میں ہمیں بارہا ایسے کردار ملتے ہیںجنہیں حسد اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے میر تقی میر اور غالب، جنہیں اپنے ہی معاصر شاعروں سے حسد کا سامنا تھا۔ہندوستانی دیو مالا میں بھی کئی مثالیں موجود ہیں، جیسے کرن، جو اپنی صلاحیتوں کے باوجود صرف ذات پات کے تعصب کا شکار رہا۔
ذاتی اور سماجی ترقی پر اثرات:۔
یہ رویہ ہماری ترقی پر منفی اثر ڈالتا ہے،ذاتی ترقی رُک جاتی ہے – لوگ تنقید سے گھبرا کر اپنی جدوجہد چھوڑ دیتے ہیں،معاشرتی ترقی سست ہو جاتی ہے – نئے خیالات کو دبانے سے قومیں پیچھے رہ جاتی ہیں،حسد کا ماحول پنپتا ہے – جس سے مجموعی طور پر معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے۔
حل:۔
تعلیم اور شعور اجاگر کریں ، حسد کے بجائے محنت اور سیکھنے کی ثقافت پیدا کریں،دوسروں کی کامیابیوں کو قبول کریں – بجائے شک کرنے کے، ان کی جیت کو اپنی تحریک بنائیں،سپورٹ سسٹم بنائیں، – تعلیمی اداروں اور دفاتر میں مثبت سوچ کی حوصلہ افزائی کریں،اجتماعی ترقی کا نظریہ اپنائیں ، سمجھیں کہ ایک شخص کی کامیابی پوری قوم کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے،ادب، میڈیا اور نصاب میں مثبت مثالیں شامل کریں – تاکہ نئی نسل اس ذہنیت سے آزاد ہو سکے۔ہندوستانی اور اردو ثقافت میں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح ہم دوسروں کو نیچے کھینچنے کے بجائے انہیں اوپر اٹھا سکتے ہیں۔ اگر ہم مقابلے کے بجائے تعاون پر زور دیں تو ہم ایک ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جہاں کامیابی رکاوٹوں میں نہیں بلکہ حوصلہ افزائی میں پنپے۔اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے، کیا ہم دوسروں کو نیچے کھینچتے رہیں گے یا سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں گے؟