بلال فرقانی
سرینگر// گنڈہ بل بٹوارہ سانحہ کا ایک سال مکمل ہوچکا ہے ۔علاقے میںوہ پل بھی مکمل ہوچکا ہے جو نامکمل تھالیکن حادثہ میں لقمہ اجل بنے افراد کے لواحقین ہنوز آہ و زاری کررہے ہیں ۔ گزشتہ برس16اپریل کو بٹوارہ اور گنڈہ بل سے گزرنے والے دریائے جہلم میں صبح سویرے 8بجکر30منٹ پر اس وقت دلدوز حادثہ پیش آیا جب گنڈہ بل میں لوگ کشتی میں سوار ہوئے جس میں سکول جانے والے کمسن طالب علم بھی تھے۔ دریائے جہلم میں اس دن غیر معمولی بہائوتھا اور بارشوں کی وجہ سے سطح آب میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ کشتی نے جب بٹوارہ کی طرف اپنا سفر شروع کیا تو پانی کا بہاو تیز تھا اور8برسوں سے زیر تعمیر پل کے ستون سے کشتی ٹکرا کر دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ پانی کے تیز بہائو نے کشتی میں سوار مسافروں کو دور پھینک دیا اور یہ مناظر دیکھ کر دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر موجود لوگوں نے شور مچایا اور غرقاب ہو رہے افراد کو بچانے کی کاروائی شروع کی۔ ابتدائی طور پر اگرچہ کئی ایک لوگوں کو بچایا گیا اور ہسپتال پہنچا دیا تاہم جہلم کی لہروں نے6افراد کو اپنی گود میں سمایا۔ کناروں پر موجود لوگ واویلا کرنے لگے اور شور محشر پیدا ہوا۔ یہ خبر جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی اور گنڈہ بل علاقے میں جو لوگ صبح سویرے گھروں سے کام کے سلسلے میں نکلے تھے ان کے اہل خانہ پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔وہ ماتم کرتے ہوئے دریائے جہلم کے کناروں پر پہنچ گئے اور اپنے اپنوں کے بارے میں تفصیلات جمع کرنے لگے۔ہر سو آہ وفغان اور ماتم کا ماحول تھا اور طالب علموںکے بستے اور کتابیں دریائے جہلم کی لہروں پر ہچکولے کھا رہی تھیں۔ اس حادثے میں کئی گھرانوں کے چراغ بجھ گئے اور وہ اپنے والدین کو عمر بھر کیلئے داغ مفارت دے گئے۔ کئی دنوں تک بازیابی کا سلسلہ جاری رہا اور اپریل کے آخر میں ایک سکولی بچے حاذق شوکت کی لاش برآمد کی گئی تاہم اس کے والد شوکت احمد شیخ کی لاش آج تک نہیں ملی۔مالی اعتبار سے انتہائی مفلوک الحال کنبے سے تعلق رکھنے ولا شوکت ولد عبدالغنی شیخ اپنے کنبے کا واحد کفیل بھی تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جب کشتی کو حادثہ پیش آیا تو شوکت نے ٹوٹی ہوئی رسی کو تھام لیاتاہم جب اس کی نظر اپنے اکلوتے ڈوبتے ہوئے معصوم بیٹے حاذق پر پڑی تو وہ اس کو بچانے گیا اور رسی کو چھوڑ دیا تاہم خونین لہروں نے اس کوبھی اپنی آغوش میں سما دیا۔ شوکت احمد شیخ 25سال کانوجوان تھااور اس کی والدہ آج بھی دریائے جہلم کے کنارے پر بیٹھ کر پانی کی لہروں کو تکتی رہتی ہے اور گویا دریائے جہلم سے مخاطب ہو کرپوچھتی ہے کہ اس کا شوکت کہا ںہے ۔شوکت کی ماں کو آج بھی اپنے بیٹے کا انتظار ہے اور وہ اپنے لخت جگر کی جدائی میں زار و قطار آنسو بہارہی ہیں۔ شوکت کی والدہ کے آنسو اب خشک ہوگئے ہیں تاہم اس کی آنکھوں میں شوکت کی واپسی کا انتظار صاف نظر آرہا ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ دن علاقے کیلئے محشر سے کم نہیں تھا۔ لطیف احمد نامی ایک شہری نے بتایا’’ کئی دنوں تک علاقے میں کوئی بھی چولہا نہیں جلا،علاقہ ماتم کدے میں تبدیل ہوگیا تھا ،ہرآنکھ نم تھی،لوگ سہمے اور خوف زدہ تھے،ہر سو رونے بلکنے کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ آج بھی جب انہیں وہ لمحات یاد آتے ہیں تو انکے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں۔گزشتہ برس وسط دسمبر میں المناک کشتی حادثے کے آٹھ ماہ بعد بالآخرگنڈہ بل پل عوام کیلئے کھول دیا گیا ۔مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم کے دونوں کناروں کے درمیان آمد و رفت میں نمایاں آسانی پیدا ہوئی ہے۔یہ پل ایک دہائی سے زائد عرصے تک نامکمل رہا، جس کے باعث مقامی لوگوں کو دریا پار کرنے کے لیے کشتیوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ حکام اس منصوبے کو وقت پر مکمل کرنے میں ناکام رہے اور یہ سانحہ پیش آیا ۔اعجاز احمد بٹ نامی ایک مقامی شہری نے بتایا’’ اگر پل وقت پر مکمل ہوتا تو آج ہم اُس سانحہ کی برسی نہیں ہوتی‘‘۔