وقف ایکٹ پر التوا کی تحریک، اراکین کا غلط اقدام تھا:وزیراعلیٰ
مشتاق الاسلام
پلوامہ//وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے منگل کے روز کہاکہ جموں و کشمیر کو ریاستی درجہ واپس دینے کا وقت آ چکا ہے ، اور انہیں پوری امید ہے کہ یہ درجہ بہت جلد بحال ہو جائے گا۔
ریاستی درجہ
رہمو پل کا افتتاح کرنے کے موقعہ پر نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران ریاستی درجے کی بحالی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں انتخابات کو چھ ماہ گزر چکے ہیں اور موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ریاستی حیثیت کو بحال کیا جائے ۔انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی وزیر داخلہ کے حالیہ جموں و کشمیر دورے کے دوران ان سے علیحدہ ملاقات ہوئی اور مجھے پوری امید ہے کہ ریاستی درجہ جلد بحال کیا جائے گا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ “جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ ملے ، یہی ہماری کم از کم منزل ہے اور اسی کے ذریعے ہم اپنی اصل منزل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔”عمر عبداللہ نے کہاکہ موجودہ عوامی سرکار نے عوام سے جتنے بھی وعدئے کئے ہیں، انہیں ہر حال میں پورا کیا جائے گا۔وزیر اعلیٰ نے کہاکہ خواتین کے لئے مفت بس سروس،دو سو یونٹ مفت بجلی اور ڈبل راشن کی فراہمی کے وعدئے پورے کئے گئے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ موجودہ سرکار عوامی مشکلات کا ازالہ کرنے کی خاطر زمینی سطح پر کام کر رہی ہیں، لوگوں کو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرناپڑے اس کے لئے سرکار وعدہ بند ہے ۔
وقف بل
ان کا کہنا تھا کہ قانون ساز اسمبلی میں وقف ترمیمی بل پر اراکین کی جانب سے پیش کی گئی تحریک التوا غلط کارروائی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا، ” اراکین کی طرف سے پیش کی گئی تحریک التوا ایک غیر مناسب اقدام تھا کیونکہ اس کا مقصد مقامی حکومت کی پالیسی کا راستہ روکنا تھا۔ تاہم، اگر قرارداد کو مختلف انداز میں پیش کیا جاتا تو شاید اس کا نتیجہ بھی مختلف ہوتا۔”عمر عبداللہ نے مزید بتایا کہ ان کی جماعت نے اب اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے ۔ ہمیں عدالت عظمیٰ کے جواب کا انتظار ہے ۔
سرکاری افسران
وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے (یوٹی) میں وزیر اعلیٰ کو کام کرنے میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے ، کیونکہ افسران ہر کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے “دس بہانے ” تلاش کرتے ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا کہ یوٹی کے نظام میں وزیر اعلیٰ کے پاس محدود اختیارات ہوتے ہیں اور اکثر اوقات سرکاری افسران تعاون کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا، “ریاست اور یوٹی میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ریاست میں وزیر اعلیٰ کے پاس مکمل اختیارات ہوتے ہیں، جبکہ یوٹی میں افسران ہر معاملے میں رکاوٹ ڈالنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔”
بیروزگاری
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت جلد ہی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے ایک قانون متعارف کروائے گی۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہماچل پردیش میں صنعتوں اور ہوٹلوں کے قیام کے وقت لازمی ہوتا ہے کہ 70 فیصد ملازمتیں مقامی لوگوں کو دی جائیں، اور اگر کوئی اس قانون پر عمل نہ کرے تو اس کی فیکٹری بند کی جاتی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ “اگر یہ قانون ہماچل کے لیے موزوں ہے تو جموں و کشمیر کو اس سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے ؟”۔مائننگ کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دریائوں پر سب سے پہلا حق مقامی لوگوں کا ہونا چاہیے تاکہ وہ ریت اور بجری نکال کر روزگار حاصل کر سکیں۔
پل
پل کے افتتاح پر تبصرہ کرتے ہوئے عبداللہ نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ چرار شریف کو جنوبی کشمیر سے جوڑنے والے پل کو 2014 کے سیلاب میں بہہ جانے کے بعد دوبارہ تعمیر کرنے میں 11 سال لگے۔انہوں نے کہا”یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس کی دوبارہ تعمیر میں کافی وقت لگا، یہ پل 2104 کے سیلاب میں بہہ گیا تھا اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے میں 11 سال لگے ہیں،میرے خیال میں یہ پل صرف ہماری طرف سے ہی کھولنا مقصود تھا، یہ پل جنوبی کشمیر کو چرار شریف سے ملانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے،” ۔عالمی بینک کی مالی اعانت سے چلنے والے جہلم توی فلڈ ریکوری پروجیکٹ کے تحت 25.97 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا یہ پل کئی دیہاتوں کے 80,000 سے زیادہ مکینوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ جن میں رہمو، پکھر پورہ، تجن،تیلہ سرہ، میر گنڈ،ٹھوکر پورہ، کمرازی پورہ، کنہ دجن،یوسمرگ اور چرار شریف شامل ہیں۔