سبزار احمد بٹ
تعلیم انسان کا بہترین زیور ہے ۔ جب انسان تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوجاتا ہے تو اس میں بُردباری، حِلم، برداشت اور صبر و تحمل آجاتا ہے ۔ اس کے کردار اور عادات و اطوار دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شخص تعلیم بلکہ تربیت یافتہ ہے یا نہیں ۔ لیکن تعلیم حاصل کرنا، تربیت یافتہ ہونا یا کسی بھی علم یا فن میں مکمل اور بہترین آگہی حاصل کرنا تب تک ناممکن ہے جب تک کہ اساتذہ کی رہنمائی حاصل نہ ہو ۔پھر یہ علم چاہیے ظاہری ہو یا باطنی ۔ اساتذہ کی رہنمائی کے بغیر کامیابی ملنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے ۔ کیونکہ واحد استاد ہی ہے جو انسان کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کو آگہی اور جان پہچان کی دنیا میں لاتا ہے۔ یہ استاد کی ذات ہے جو ایک بچے کی دنیا کو علم کے نور سے آراستہ کر کے اُس کی زندگی کو آسان بنا دیتا ہے ۔ یہی وجہ سے کہ دنیا کے تمام تر مذاہب نے استاد کی بڑائی اور عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن استاد کے تجربات اور علم سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاب کے دل میں اساتذہ کی عظمت اور وقار ہو ۔طلاب اپنے اساتذہ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہوں اور ان کا احترام کرتے ہوں ۔ لیکن موجودہ صورتحال بے حد تشویشناک ہے۔ اساتذہ کی معمولی چوک یا غلطی کو ہدف تنقید بنا کر تذلیل کی جاتی ہے ۔ کیااساتذہ کسی اور دنیا سے آئے ہوئے لوگ ہیں اور یہاں کے کچھ لوگ اس طاق میں رہتے ہیں کہ کب کسی استاد سے کوئی غلطی ہو جائے اور انہیں اُن کی عزت اچھالنے کا موقع ملے ۔جبکہ المیہ یہ ہے کہ اساتذہ برادری کو فوراً سے پیشتر نشانہ بنایا جاتا ہے ۔آئے دن ایسے ویڈیوز اور ایسی کہانیاں گشت کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں ، جہاں اساتذہ کی تذلیل کی جارہی ہے ۔ صحافت سے منسلک بعض نا فہم لوگ ،جن کو صحافت کا ادراک نہیں،ہر اُس بات کو سوشل میڈیا پر لانے سے گریز نہیں کرتے،جس سے بے گناہ لوگوں کے عزتوں کا جنازہ نکل جاتا ہے۔جبکہ ایسے ویڈیو دیکھ کر معاشرے کے کمزور اور کند ذہن لوگ اُچھل کود کرکے زہر اگلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔
آخر ہم کس جانب جا رہے ہیں ، یہ قوم اساتذہ کے پیچھے کیوں پڑی ہے ۔ کچھ والدین بھی اساتذہ کرام کو اپنا زرخرید غلام سمجھتے ہیں اور اُن کی بے عزتی کرنے پر اُتر آتے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ استاد اگر بچوں کی تعلیم و تربیت کرتا ہے تو وہ اس کے عوض اُجرت لیتا ہے لیکن اگر ہم عمر بھر اپنے اساتذہ کے پاؤں دھویں گے پھر بھی ان کے حق کا عشر عشیر ادا نہیں کر سکتے ۔ ہم یہ بات اپنے بچوں کو کیوں نہیں سمجھا پاتے ہیں کہ تعلیم فقط سوال یاد کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی کامیابی اساتذہ کرام کے احترام میں مضمر ہے ۔ معاشرہ شاید اس بات کو بھول چکا ہے کہ بڑے بڑے بادشاہوں نے اساتذہ کا احترام کیا ہے۔انہیں یاد ہی نہیں کہ’’خلیفہ ہارون رشید کے دو صاحبزادے امام نسائی کے پاس زیرِ تعلیم تھے۔ ایک بار اُستاد کے جانے کا وقت آیا تو دونوں شاگرد انہیں جوتے پیش کرنے کے لیے دوڑے، دونوں ہی اُستاد کے آگے جوتے پیش کرنا چاہتے تھے، یوں دونوں بھائیوں میں کافی دیر تک تکرار جاری رہی اور بالآخر دونوں نے ایک ایک جوتا اُستاد کے آگے پیش کیا۔ خلیفہ ہارون رشید کو اِس واقعے کی خبر پہنچی تو بصد احترام امام نسائی کو دربار میں بلایا۔مامون رشید نے امام نسائی سے سوال پوچھا کہ، ’’استادِ محترم! آپ کے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ عزت و احترام کے لائق کون ہے؟‘‘ مامون رشید کے سوال پر امام نسائی قدرے چونکے، پھر محتاط انداز میں جواب دیا،’’میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ احترام کے لائق خلیفہ وقت ہیں۔‘‘ خلیفۂ ہارون کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ اُتری اور کہا کہ’’ ہرگز نہیں استادِ محترم! سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ اُستاد ہے جس کے جوتے اُٹھانے کےلئے خلیفۂ وقت کےبیٹے آپس میں جھگڑیں۔‘‘اس واقعے سے اُستاد کی عظمت کا اندازہ ہو گیا ہوگا۔
اساتذہ کرام کے خلاف بڑھتے ہوئے ہمارے اجتماعی رویے کا اثر نئی نسل پر بھی پڑ رہا ہے ۔ نئی نسل روگردانی پر اُتر آئی ہے ۔ اسکولی بچے باغی ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ ہم نے اُستاد کے ہاتھ باندھے ہیں کہ ایک استاد ایک بچے کو مارنے کی بات تو دور، اس کی ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کر سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو ہم قوم کی بہتری کی کیسے کوئی اُمید رکھ سکتے ہیں۔ آخر استاد کو ہم نے اتنا بے بس کیوں کیا ہے، استاد اتنا لاچار کیوں بنایا ہے ؟ اسی بے بسی اور لاچاری کی وجہ ہے کہ ایک استاد کلاس میں پڑھا رہا ہوتا ہے اور بچے ہنسی مذاق میں مشغول ہوتے ہیں اور اُستاد بے بس ہو کرمجبوراً تماشہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ظاہر ہےکہ وہ نہ تو بچے کو مار سکتااور نہ ڈانٹ ڈپٹ کر سکتا ہے۔ کیونکہ اُستاد جانتا ہے کہ طالب علم باہر نکلے گا اور باہر ہمارے نام نہاد صحافی اس کا انتظار کر رہے ہونگے اور وہ منٹوں میں اُستاد کی عزت کا جنازہ نکالیں گے ۔ حال ہی میں ایک اخبار کا نمائندہ خدا جانے کس کے ارشاد کی تعمیل کرتا ہوا ایک اسکول کے احاطے میں اپنی مائک اور کیمرہ لے کر نمودار ہوا اور بچوں کی کہانی ایسےسُنانے لگا جیسے ان بچوں پر قیامت ڈھائی گئی ہو۔ بچے بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں کھیل کود کا سامان نہیں دیا گیا، لہٰذا ہم فزیکل ٹیچر اور ہیڈماسٹر کا تبادلہ چاہتے ہیں ۔دُکھ یہ دیکھ کر ہوا کہ ویڈیو کے نیچے لوگوں نے کس طرح کے کمنٹس کئے تھے ۔ کیا ہم یہ مان کر چلیں کہ ہم اجتماعی طور پر اساتذہ کی تذلیل کے لیے کمر بستہ ہو چکے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں اپنی بربادی دیکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ ہمارے بچوں کا ذہن پہلے ہی سوشل میڈیا نے آلودہ کیا ہوا ہے، بچوں کو اساتذہ کے خلاف اُکسا کر آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا جارہا ہے ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو معاشرے سے قدروں کا جنازہ نکلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ افسوس صد افسوس! چند نام نہاد صحافی یہ تک نہیں سوچتے کہ اُن کی اس طرح کی خبر چلانے اور پھیلانے سے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا اور زیر تعلیم طلاب کے ذہن و شعور پر کیسا تاثر پڑے گا،اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ پچھلے کئی سال دکھائی دے رہا کہ جیسے کچھ لوگ ہاتھ دھو کر اساتذہ کی عزت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ کبھی یہ بتاکر ہنگامہ شروع کرویا جاتاہے کہ اساتذہ اسکولوں میں بچوں سے کام کروارہے ہیں، بچے کو پانی کی بالٹی لانے کے لئے کہہ رہے ہیں یا بچوں سے کئی قسم کے چھوٹے چھوٹے کام کروائے جارہے ہیں ۔کیا انہیں نہیں دکھائی دیتا کہ اساتذہ اسکول کے بیت الخلا خود صاف نہیں کرتے ہیں؟ کیا اساتذہ اسکول میں خود جھاڑو نہیں لگاتت ہیں؟ کیا اساتذہ پانی کی پائپ یا بجلی سپلائی ٹھیک نہیں کرتے ہیں؟ کیا ایک استاد بچوں کی ناک صاف نہیں کرتا ہے؟ کیا ایک استاد اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر بچوں کی تعلیم و تربیت میں پیش پیش نہیں رہتا ہے ۔ تو ایسے میں ایک بچے سے اگر کبھی کبھار کوئی معمولی کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا ہے، کون سی قیامت آجاتی ہے؟ دنیا بھر میں اُستاد کو کاری گر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اُستاد اپنی تربیت سے بچے کی تراش خراش کر کے اسے ہیرا بنا دیتا ہے، لیکن موجودہ صورتحال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ استاد بغیر ہاتھوں کے کاری گر بن کے رہ گیا ہے ۔ آجکل کے بیشتروالدین اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ اُن کے بچے اپنےاساتذہ کے خلاف بول رہے ہیں بلکہ چند والدین بھی اساتذہ کی عزت اُچھالنے میں اپنی بڑھائی محسوس کرتے ہیں لیکن اُنہیں شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ جو بچے آج استاد کے خلاف زبان درازی کر رہے ہیں وہ کل اپنے والدین کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ جو بچہ ایک استاد کی عظمت کو نہیں سمجھے گا تو اس کا مستقبل کیسے روشن ہو سکتا ہے ؟تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے اساتذہ کی عزت کی، وہ زندگی میں کامیاب ہو گئے اور جنہوں نے اساتذہ کی تذلیل کی، ذلت اور ناکامی ان کا مقدر بن گئی۔ ہم سب کو اجتماعی طور پر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم قوم کو کس جانب لے جا رہے ہیں؟ ہم نئی نسل کی کیسی تربیت کر رہے ہیں؟ کیا ہم وہ وقت بھول گئے ہیں جب ایک اُستاد بچے کو غلط حرکتوں سے باز رکھنے کے لیے ہلکا پھلکا مارتا تھا ، بچے کی ڈانٹ ڈپٹ کرتا تھا اور بچے استاد کے سامنے نظریں جھکا کر رہتے تھے، وہ استاد کے ہر حکم کی تعمیل کرتے تھے اور اُف تک نہیں کرتے تھے ۔ اور اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی اور عزت سے نوازتا تھا ۔ آجکل کے والدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے اُستاد قوم کا معمار ہے مزودر نہیں ۔ والدین کو معاملے کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی اساتذہ کی عظمت کا احساس دلانا چاہیے ،تاکہ بچوں میں صبر اور برداشت کا مادہ پیداہوجائے ۔کیونکہ صبر ایک بہت بڑی دولت ہے جس سے ہمارے بچے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ افسوس حالات اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ اب قوم کے بزرگ بھی بچوں سے احتیاط سے بات کرتے ہیں کہ کہیں بچے پلٹ کر نہ بولیں۔ قوم کے بزرگوں کی زبانیں بھی بچوں کو نصیحت کرنے سے لڑکھڑاتی ہیں ۔ بقول شاعر
سنبھل کر گفتگو کرنا بزرگو
بچے اب پلٹ کر بولتے ہیں
[email protected]