ہست و نیست اور وجود و عدم ہمیشہ سے انسانی عقل کے سامنے بڑے پیچیدہ موضوعات رہے ہیں۔ یہ مسائل فلسفے کے ساتھ ساتھ مذہب کے بھی اہم موضوعات تصور کیے جاتے ہیں۔ جہاں کئی نقطہ ہائے نظر ہستی کو اہمیت دیتے آئے ہیں، وہیں بہت سارے مکاتیب فکر نے نیستی کو حقیقت جان کر دنیائے ظاہر کو ’’مایا‘‘ (دھوکا) قرار دیا ہے۔ جہاں کئی فلاسفہ نے نری مادیت پر زور دیتے ہوئے روح کی حقیقت سے بالکل انکار کردیا، وہیں کئی حکماء نے حیات کے روحانی پہلو کو زیادہ اُجاگر کیا۔ یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ ارسطو نے افلاطون کے عالم امثال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے اشیاء کے امثال (فارمز) کو ان کے مادی وجود کا ہی خاصہ قرار دیا۔
تاہم فلسفۂ اسلام جہاں حیات پر بات کرتا ہے، وہیں یہ ممات کو بھی زیر بحث لاتا ہے۔ چونکہ دنیائے ظاہر میں انسان مادے میں حیات اور حیات میں شعور کا اعلیٰ ترین شاہکار ہے، اس لئے اسلام انسان کے عدم اور وجود کو واشگاف الفاظ میں واضح کرتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’کبھی گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔‘‘ (الدھر۔ ۱) یعنی انسان کو بحیثیت فرد یاد دلایا جارہا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ نہیں تھا۔ پھر خالق نے چاہا تو اس کی تخلیق کا سامان کیا۔ اسی طرح مجموعی طور پر پوری انسانیت پر بھی واضح کیا جارہا ہے کہ اس کے معرض وجود میں آنے سے قبل بھی کائنات مخلوقات سے بھری پڑی تھی۔ تاہم زمین پر انسان اور انسانیت کی تخلیق اس وجہ سے ایک بڑا واقعہ ہے کہ انسان کے لئے اس قدر امکانات رکھے گئے کہ وہ اس دنیا کے خاتمے پر ایک نئی دنیا یعنی جنت کا وارث بن سکتا ہے۔
جنت کی اس وسیع و عریض دنیا کا وارث بننے کے لئے انسان کو ’’نہ ہونے‘‘ سے ’’ہونے‘‘ تک کا سفر طے کرایا جاتا ہے۔ انسان کے ظاہری طور پر ’’ہونے‘‘ کی مدت اگرچہ بہت تھوڑی ہے، لیکن انسان اس مدت کے دوران ظاہر کے ساتھ کچھ اس طرح متعلق اور منسلک ہوجاتا ہے کہ وہ بس اسی مدت کو ’’ہونا‘‘ تصور کرتا ہے۔ انسان کے لئے یہ ’’نہ ہونے‘‘ اور ’’ہونے‘‘ کا کارخانہ اسی لئے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ اسے جانچا پرکھا جائے۔ اس جانچ پرکھ میں پورا اترنے کے بعد ہی اسے خدا کی اس حسین ترین دنیا میں جگہ دی جائے گی جہاں فقط ’’ہونا‘‘ ہوگا اور جہاں انسان کو ’’نہ ہونے‘‘ کا اندیشہ نہیں رہے گا۔ ’’نہ ہونے‘‘ سے ’’ہونے‘‘ تک اور پھر ’’ہمیشگی کے ہونے‘‘ تک کے سفر کو قرآن نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے؛ جیسے: ’’جس (اللہ) نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل کون کرتا ہے۔‘‘ (الملک۔ ۲) چونکہ یہ ایک منضبط عمل رہا ہے، اس لئے اس سلسلے میں تخلیق انسان سے بہت پہلے کی بات بھی کی گئی ہے۔ تاہم یہاں پر بھی یہی بات کی گئی ہے کہ اصل منصوبہ یہی تھا کہ زمین پر انسان کو بساکر اس کی آزمائش کی جائے: ’’اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے۔‘‘(ھود۔ ۷)
واضح رہے کہ انسان کا ’’ہونا‘‘ اس کو زمان و مکان کے ظاہری یا قابل پیمائش ابعاد (میژریبل ڈائمینشنز) کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ان ابعاد سے ماوراء کسی چیز کا احاطہ نہیں کر پاتا۔ اس لئے انسان انہی ابعاد کو سب کچھ تصور کرکے ’’ہونے‘‘ اور ’’نہ ہونے‘‘ کو زمان و مکان کا ہی کھیل قرار دیتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہی ہے۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مار ڈالتا ہے۔‘‘ (الجاثیہ۔ ۲۴) لیکن خالق کائنات ان ابعاد سے بالکل ماوراء ہے۔ اس لئے یہ ابعاد ایک تو اس پر اثر انداز نہیں ہوتے اور دوسرے وہ کارخانۂ ہستی کا انتظام کسی خلل کے بغیر چلاتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ ’’ارض و سمٰوات کا نور‘‘(النور۔ ۳۵) ہونے کے باوجود تخلیق کے ساتھ کوئی مادی تعلق نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس ’’وہ اول و آخر و ظاہر و باطن‘‘ (الحدید۔ ۳) تو ہے لیکن اس کے باوجود ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں۔‘‘(الشوریٰ۔ ۱۱)
خالق اور مخلوق کے درمیان یہی بعد (دوری، فرق) ایک کو رب اور دوسرے کو مربوب بناتا ہے۔ اسی سے خالق معبود رہتا ہے، جبکہ مخلوق عبدیت کا مقام پالیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا اس صورت میں ممکن ہی نہیں ہے اگر خالق اور مخلوق کا رشتہ اتصال کا ہو۔ ایسی صورت میں دو ہی چیزین ممکن ہوتی ہیں: یا تو خالق (نعوذ باللہ) مخلوق میں حلول کرکے ’’اوتار‘‘ کی شکل اختیار کرے، یا پھر مخلوق اور خالق ’’متصل‘‘ ہوکر ہر طرح کے فرق کا خاتمہ کریں۔ ان دونوں صورتوں میں مخلوق کے ’’ہونے‘‘ یا’’نہ ہونے‘‘ کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ مزید برآں، اس صورت میں خودآگہی ممکن ہے اور نہ ہی کسی خارجی ہستی (سادہ تر الفاظ میں خالق) کا اعتراف کیا جاسکتا ہے۔ یعنی اس صورت میں معرفت نفس یا معرفت رب کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن خالق اور مخلوق کے فرق کو رب کی معرفت اور عبادت کے لئے استدلال کی بنیاد بناکر پیش کرتا ہے: ’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا۔‘‘ (البقرہ، ۲۱) خدا کے ساتھ معرفت اور عبادت کا رشتہ قائم کرنے کے لئے ہی انسان کو ’’نہ ہونے‘‘سے ’’ہونے‘‘ کا سفر کرایا جاتا ہے: ’’تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو، حالانکہ تم مردہ تھے، اس نے تمہیں زندہ کیا، پھر تمہیں مار ڈالے گا، پھر زندہ کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘(البقرہ۔ ۲۸)
ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ارسطو کا یہ نظریہ کہ ’’فکر، مفکور اور مفکر اپنی ذات میں ایک ہیں‘‘صحیح معلوم نہیں ہوتا! واضح رہے کہ اس نظریے کا اطلاق حقیقت مطلق (ایبسلیوٹ) پر کیا جاتا ہے۔ یعنی حقیقت مطلق مجرد فکر ہے۔ یہی نظریہ نوافلاطونی فکر میں اپنے بال و پر لاکر مخلوق کو ذات مطلق سے دس عقول (انٹیلیجنسز) کے توسط سے تخریج (ایمینیشن) کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ یہی فکر آفاقی روح کو منفرد روح کا مخرج قرار دیتی ہے۔ اسی نظریے کے تحت یہ باور کیا جاتا ہے کہ انفرادی روح قفس عنصری میں زمان و مکان کی تحدید کی وجہ سے مقید ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ روح اس وقت تک بے قرار رہتی ہے جب تک نہ یہ جسم سے آزاد ہوکر اپنی اصل یعنی آفاقی روح کے ساتھ متصل نہیں ہوجاتی۔ یہی روح کی نجات (سالویشن) قرار دی جاتی ہے۔ تاہم حیات دنیوی یا ظاہری حیات کے دوران روح کو اسی صورت میں قرار حاصل ہوتا ہے جب یہ فلسفیانہ تفکر (کنٹمپلیشن) یا صوفیانہ مراقبے میں مشغول ہوجائے۔ یعنی روح کا مکمل اطمینان قفس عنصری سے آزادی میں ہی پنہاں ہے۔ بقول مرزا غالب:
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تاہم سوال یہ ہے کہ اس’’فنا‘‘ میں انسان کی (منفرد) روح (نفس یا شخصیت) کی بقا کا کتنا امکان ہے؟ یہیں پر اس نظریے کے تانے بانے نظریۂ ہمہ اوست یا وحدت الوجود کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب خالق اور مخلوق یا عبد اور معبود کا فرق مٹ گیا تو عبد کا معبود کے ساتھ عبادت کے ذریعے قائم ہونے والا رشتہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظریے کو من و عن قبول کرنے سے اخلاقیات کا پورا قصر زمین بوس ہوجاتا ہے، جو مذہب کا بالخصوص اور فلسفہ کا بالعموم مطمح نظر رہا ہے۔ یہ بات نہایت تعجب خیز ہے کہ ابن العربی کے وضع کردہ نظریۂ وحدت الوجود پر سب سے بڑی تنقید اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اس کی آڑ میں کئی لوگوں نے اسلام کی اخلاقیات کو لا یعنی ٹھہرانا شروع کیا تھا۔
اس نظریے کے تحت جب اخلاقیات کی معاشرے میں ضرورت ہی نہیں رہی تو انسان کا ’’ہونا‘‘ یا ’’نہ ہونا‘‘ چہ معنی دارد؟ اس صورتحال میں انسان ’’ہونے‘‘ کو پسند نہیں کرتا، بلکہ اسے ’’نہ ہونا‘‘ ہی عزیز ہوتا ہے۔ اسے ’’وجود‘‘ سے زیادہ ’’عدم‘‘ سے دلچسپی ہوتی ہے۔ وہ نوافلاطونی انداز میں یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح اس کی روح جسم کے قفس سے آزاد ہوجائے۔ تاہم ایسا شخص نام کی یا نامکمل آزادی کا خواہاں نہیں ہوتا، بلکہ اسے ’’حریت تامہ‘‘ کی احتیاج ہوتی ہے۔ وہ اصل میں ’’ہونے‘‘ سے ہر طرح کی تعلق توڑنا چاہتا ہے۔ اسے مادہ اور مادے سے جڑی ہر نسبت سے نفرت جیسی ہوجاتی ہے۔ یہ مادی نسبتیں اور یہ ظاہری تعلقات اسے بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ روحانی قدروں کے تئیں اس کا شدت احساس ہوتا ہے جو اس سے اس طرح کا اعتراف کروا لیتا ہے:
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
تاہم اصل بات یہی ہوتی ہے کہ وہ ’’ہستی‘‘ پر ’’نیستی‘‘ کو ترجیح دیتا ہے! وہ ’’ہونے‘‘سے ہر رشتہ منقطع کرکے ’’نہ ہونے‘‘ کے ’’بحر محیط‘‘ میں گم ہوجانا چاہتا ہے:
ہوئے مر کے جو ہم رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
بہرحال انسان لاکھ کوشش کرے ’’نسیاً منسیاً‘‘ ہونے کی، وہ سپرد خاک، سپرد آتش یا منار خاموشی کی نذر ہوکر شہر خموشاں (نیکروپولس) کا باسی بن ہی جاتا ہے۔ تاہم زندگی کی ظاہری مدت میں اسے ہمیشہ یہ جستجو رہتی ہے کہ سلسلۂ حیات انسانی میں پنہاں راز کو جان سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ظن و تخمین اور قیاسات کی ایک عمارت کھڑا کرتا ہے۔ اس عمارت کا انطباق وہ مجموعی حیات پر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ تاہم تمام تر خیال آرائی کے باوجود ’’ہونے‘‘ اور ’’نہ ہونے‘‘ کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے وہ ایک نیا ’’چھبکا معما‘‘ (جگسا پزل) سامنے لاتا ہے، جس سے زندگی کی پہیلی قائم و دائم رہتی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہتا ہے کہ:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
لیکن خدائے رحمٰن اس پہیلی کا تسلی بخش جواب دیتا ہے کہ: ’’۔۔۔ تو کہہ دیا (کرو) کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘ (البقرہ۔ ۱۵۶) حیات انسانی کی یہ وہ تفسیر ہے جس سے عقل کی تشفی ہوتی ہے اور دل اطمینان کی دولت سے مالامال ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل و دل ہی انسانی شخصیت کو نہ صرف منفرد بناتے ہیںبلکہ یہی اسے ابدیت اور دوام کا شعور عطا کرتے ہیں۔ اس لئے ظاہری حیات کے اختتام سے فقط حیات انسانی کے مسلسل ’’ہونے‘‘ کا اعلان ہوتا ہے:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ ۔ 9858471965
[email protected]
ع