مشتاق مہدی
وہ کئی سو میلوں کے سفر کے بعد لوٹا تھا
چہرے اور لباس پر گرد کی ہلکی سی تہہ تھی۔ذہن اور جسم کچھ تھکا ہوا سا۔۔۔سہ پہر کا وقت تھا۔دھوپ میں تمازت تھی ۔سڑک پر واقع مکان کے آنگن میںقدم رکھتے ہی اس نے پہلے شمال پھر جنوب کی طرف کی دیوارکو غور سے دیکھا اور قریب جاکر کچی اینٹوں کی دیواروں کو سونگھا بھی کہ محسوس کرے اُس کی غیر موجودگی میںکوئی نئی خوشبواُگ آئی ہے کہ نہیں۔موسم دم توڑتی ہوئی گرمی کا تھا۔گملوں میں لگے سفید زرد گلاب کچھ پھیکے سے لگے ۔ذہن میں ایک خیال نے انگڑائی لی۔احساس ہوا خوشبوئیں اپنے اپنے وقتوں پر ضرور اُگی ہونگی پھر ہواوئں نے بھگا دیا ہوگاکہ ایک ہی مقام پر جمے رہنا ،ٹھہرنا کتاب کے صفوں پر لکھا ہی نہیں۔۔۔سفر مسلسل سفر فلسفہ حیات ہے ۔
میں کہاں پر ہوں۔۔۔۔۔
یکایک ہی اسے اپنی گمشدگی کا احساس ہوا
ذہن نے سرگوشی کی
تم اپنے گھر کے آنگن میں ہو ۔
ہاں سامنے گھر تو ہے میرا ۔۔۔۔۔۔مگر اصل گھر تو یہ میرا دل ہے ۔لٹیروں نے جسے دو دو ہاتھوں سے خوب لوٹ لیا اور اب دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
اس نے جلدی سے آس پاس نظریں دوڑائیں۔کہیں کوئی لٹیرا نظر نہ آیا۔اندر سے ماں نکل کر برآمدے پر دکھائی دی ۔ساتھ ہی اس کی نرم مترنم آواز کانوں میں شہد گھولنے لگی ۔
’’ میرے بچے۔۔۔میرے جگر کے ٹکڑے ۔۔تم کب آئے ‘‘
’’ جی امی جان ابھی ۔۔۔۔‘‘
وہ آگے بڑھتا ہوا بولا۔ماں نے اسے اپنی چھاتیوںسے لگالیا ۔اس کا چہرہ پھول کی مانند کھل اٹھا تھا ۔وہ سراپا ماں تھی لیکن بیٹے کے لئے یہ لمحہ رسمی تھا ۔بے کار سا تھا ۔وقت کی بے رحم ہواوئں نے اُس کی ساری شگفتگی چھین لی تھی ۔اس کے سارے معصوم رنگ چرالئے تھے ۔ماں کیا جانے ۔۔۔لداخ کے ننگے سرخ زردپہاڑوں کی آغوش میں میں اکیلا تنہا کیسے جیا۔۔۔میرے شام و سحر وہاں کیسے گزرے ۔امی تو کچھ بھی نہیں جانتی ۔وہ ماں کے ساتھ چلتا ہواکچن میں آگیا ۔چھوٹی بہنیں پہلے چونکیں پھر مسکرادیں۔
’’کیسی ہو تم شیفا ۔۔۔‘‘
’’ جی بھائی جان۔۔۔میں ٹھیک ہوں ‘‘
’’ اور تم زرینہ ‘‘ اس نے سب سے چھوٹی بہن کی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کیا ۔
’’ پڑھائی کیسی چل رہی ہے ‘‘
’’ جی بھائی جان ۔۔۔اچھی چل رہی ہے ‘‘ زرینہ نے مختصر جواب دیا۔اُسے حیرت سی ہوئی ۔
وہ اپنے لمبے گرد آلود بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچنے لگا ۔نہ کوئی مانگ ۔۔۔نہ کسی تحفے کی طلب۔۔۔نہ کوئی گلہ ہی ۔جیسے وہ کوئی اجنبی تھا بھائی نہ تھا۔
وہ بے چین سا ہوگیا۔آنکھیں ادھر ادھر گھماکر دروازے پر ٹک گئیں۔لمحہ بھر بعد ہی اس کی بیوی شرماتی ہوئی سی داخل ہوئی ۔ماں کے نزدیک آکر اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرنے لگی ۔
’’ تم ٹھیک تو ہو ‘‘
’’جی۔۔۔میںاچھی ہوں ‘‘ فاطمہ نے دھیمی آواز میں جواب دیا
’’ منا۔۔۔کہاں ہے ‘‘
’’ وہ سو گیا ہے ‘‘
’’ سوگیا ہے ‘‘اس نے کسی قدر تلخی کے ساتھ کہا ’’ سب ہی تو سو گئے ہیں۔ جائو اُسے جگاکر لاو ‘‘
فاطمہ نے اسے گھور کر دیکھا ۔پھر خاموشی سے نکل گئی ۔
ماں پیار بھری نظروں سے بیٹے کوتکے جارہی تھی ۔پھر اچانک ہی ایک سوال داغا
’’ یہ بتائو۔۔۔تم نے داڑھی اتنی کیوں بڑھادی ہے‘‘۔
’’ بس۔۔۔امی جان یونہی ‘‘ تھوڑا سا مسکراکر بولا ’’ آپ کو پتا ہے وہاں کچھ لوگ مجھے دیکھ کر ست سری اکال کہتے ہیں ‘‘
ست سری اکال کیوں ۔۔۔؟‘‘
’’ وہ سمجھتے ہیں کہ میں سِکھ ہوں ‘
’’سکھ۔۔۔۔‘‘ ماں نے حیرت سے کہا ’’ وہ لوگ اتنے کم فہم ہیں ۔اتنے بدھو ہیں کہ سکھ اور مسلمان میں فرق ہی نہ کر پائیں ‘‘
’’ امی جان ۔۔۔وہ لداخ کا ایک دور دراز علاقعہ ہے۔ پہاڑوں میںآباد ایک چھوٹی سی وادی ۔اچھے
اور نیک ہیں لیکن بہت ہی پسماندہ۔۔۔وہاں بجلی ہے نہ سڑک اور چند ہی لوگ ہیں جو اردو سمجھتے ہیں‘‘
’’ پھر وہاں تم کرتے کیا ہو میرے لعل۔۔۔‘‘
’’ وہ کیا کہتے ہیں ہم اُسے۔۔۔۔ہاں اَر سَر (کشمیری زبان کا لفظ،وقت گزاری کے لئے غیر ضروری کام کرنا) ّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّ۔ڈیوٹی کی معیاد پوری کررہا ہوں امی جان ۔ابھی کچھ مہینے
باقی ہیں ‘‘
’’اللہ رحم کرے۔۔۔اچھا اٹھو منہ ہاتھ دھو لو ۔تب تک شیفا چائے بنائے گی ‘‘
شیفا اٹھ کر چل دی۔
وہ بھی کچھ سوچتا ہوا باہر نکلنے کے لئے مڑ گیا ۔اُسی لمحہ فاطمہ منے کو گود میں سنبھالے داخل ہوئی۔وہ کچھ سویا اور کچھ جاگا ہوا تھا ۔اُس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔باپ کو بے انتہا پیار آیا۔منے کو ہاتھوں میں لے کر سینے سے لگا لیا۔پھر اس کے نرم نرم ہاتھ ،سیب جیسے گال اور چھوٹے چھوٹے بال چومنے لگا۔آس پاس نظر اٹھاکر دیکھا ۔
امی جان،زرینہ اور فاطمہ ا پنی کسی دھن میں کھوئی نظر آئیں لیکن منا باپ کی گود میں بہت شانت لگ رہا تھا۔یکایک ہی اُسکے اندر کہیں کسی کونے میں اس کااپنا بچپن کسمسایا ۔جو گئے وقت کی مانند کہیں چھپا ہوا تھا ۔جو اُس سے بچھڑ گیا تھا ۔جسے وہ ایک بار صرف ایک بار اور دیکھنا چھونا اور چومنا چاہتا تھا .
خواہش معصوم تھی ۔
اور بچپن کتنا دور۔۔۔گئے موسموں کا ایک نغمہ ۔۔۔ایک خواب سااور حال بے رنگ۔۔۔بکھرا ہوا ۔
اس نے منے کو فاطمہ کے ہاتھوں میں دیا۔ایک اچٹتی سی نظر امی جان پر ڈال دی ۔۔۔اور اچانک اس کا سینہ بھر سا آیا۔درد سے بھری آواز میںبولا
’’ امی جان۔پہاڑوں نے مجھے صدیوں کی پیاس دی ہے۔میں اندر سے سوکھ گیا ہوں ۔بکھر چکا
ہوں۔میں چاہتا ہوں ۔۔۔۔‘‘
’’ ہاں ہاں آگے بول۔۔۔میرے فرزند ‘‘
’’ امی جان میں چاہتا ہوں۔ایک بار پھر مجھے آپ اپنی چھاتیوں کا دودھ پلائیں۔اپنی گود میں بے فکر نیند سلا ئیں ۔امی جان۔۔۔۔‘‘
کہہ کر وہ نکل گیا۔
کچن میں ایک ہنسی چھوٹی ۔۔۔بہنوں کی ۔۔۔امی جان کی ۔۔۔۔۔اور فاطمہ کی امی کہہ رہی تھی ۔
’’ اتنا بڑا ہوکے بھی جیسے کل کا مُنا ہے ‘‘
���
مدینہ کالونی، ملہ باغ، سرینگر. موبائل نمبر؛9419072053