قیصر محمود عراقی
رمضان شریف کے ساتھ ہی نیکیوں کا موسم بہار شروع ہوجاتا ہے، ماحول خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے گونج اٹھتا ہے، جوق درجوق لوگ خدا کی بارگاہ میں آکر مسجدوں کی رونقیںبڑھاتے ہیں۔جہاںتکمیل قرآن کی تقریب میںنزول قرآن اور دیگر عبادات کا ذکر کیا جاتا ہے، وہاں ائمہ کرام سوچ رہے ہوتے ہیں کہ نہ جانے ان ’’ڈھیر سارے ‘‘نمازیوں کا رمضان کے بعد دوبارہ چہرہ دیکھنا کب نصیب ہوگا؟ ذرا غور کریںکہ ہر دفعہ رمضان کے بعد ایسا کیوں ہوتا ہے اور ہماری مساجد اے اللہ نمازیوں سے خالی کیوں ہوجاتی ہے؟ ہمارے علما کرام رمضان شریف کے مہینہ میں کی جانے والی عبادت کا اَجر اتنا بڑھادیتے ہیں کہ رمضان میں تمام مساجد میں بچے ، جوان اور بوڑھے آنے لگتے ہیںاور جیسے ہی رمضان اختتام ہوجاتا ،پھر وہی گنے چنے روز کے پنج وقتہ چند نمازی۔گویا رمضان کے اعلان کے ساتھ ہی باقاعدگی سے مسجدوں میں جانا ، نماز اور روزوں کی پابندی کرنا اور رمضان کے بعد اس پابندی سے یکسر آزادی ، مسلمانوں کی ایک مروجہ عادت اور ایک معاشرتی رواج بن چکا ہے۔ پرانی کہاوت کے مطابق نمازیوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ کوئی آٹھ کے ، کوئی کاٹھ کے اور کوئی تین سو ساٹھ کے ہوتے ہیں، یعنی کوئی جمعہ کی نماز پڑھتا ہے ، کوئی جنازہ کی نماز میں شریک ہوتا ہے اور کوئی عید کے موقعے پر ہی مسجد میں حاضری دیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ شعبان کے مہینے تک جو مسجدیں مرثیہ خواںہوتی ہیںکہ نمازی نہیں ہیں،وہ رمضان المبارک میںنمازیوں سے بھر جاتی ہے۔ پورے رمضان المبارک میں مسجدیں آباد نظرآتی ہیں، ہم میں سے وہ لوگ بھی جو صرف جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے علاوہ مسجدوںمیں نظر نہیں آتے وہ بھی باقاعدگی کے ساتھ نماز با جماعت میں شریک ہوتے ہیں۔حالانکہ جو لوگ رمضان المبارک کے دوران مسجدوں سے رجوع کرلیتے ہیں، انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ نے رمضان کے دوران اس ماہ مبارک کی برکت سے باجماعت نماز کی توفیق عطا فرمادیتاہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ کے حضوراپنی پچھلی زندگی پر نماز کی عدم ادائیگی پر صدق دل سے توبہ کرنا چاہئے اور نماز کی ادائیگی کا بقیہ زندگی میں ادا کرنے کا عزم کا اظہار اور اس پر ثابت قدمی کی توفیق طلب کرنی چاہئے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ شوال کی پہلی تاریخ کو دوبارہ مسجدیں مرثیہ خوانی کرتی نظر آتی ہیں۔ کون مسلمان نہیں جانتاکہ نماز کی ادائیگی ہر صورت میں فرض ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کی پُرشش ہوگی، افسوس صد افسوس مسلمانوں کی عظیم اکثریت اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برت رہی ہے۔ سخت حیرت ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کے پورے پورے مہینے کی نمازوں کی ادائیگی کے بعد بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، غور کرنے پر اس کی مختلف وجوہات نظر آتی ہیں۔ اول یہ کہ ہر مسلمان نیکیوں کا حریص ہوتا ہے اور جب اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ رمضان کے دوران ایک فرض نماز کی ادائیگی پر اسے ستر فرض نمازوں کا ثواب ملتا ہے تو وہ اپنی کوتاہیوں کی تلافی کیلئے اس ماہ مبارک سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، دوسری وجہ یہ محسوس ہوتی ہے کہ شاید وہ صرف رمضان کے مہینے ہی میں نماز کی ادائیگی کو فرض سمجھتا ہو اور رمضان کے بعد ا س کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں، تیسری وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ روزوں کیلئے نماز کی اہمیت اس لئے دیتا ہے کہ اس کے بغیر شاید اس کے روزے قبول ہی نہ کئے جائیں۔اس لئے باقی مہینوں کے مقابلے میں مساجد زیادہ آباد ہوتی ہیں، لوگوں میں عبادت کا ذوق وشوق بڑھ جاتا ہے، بہت سے لوگ اپنی توفیق کے مطابق اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں، لیکن بہت سی خرابیاںہمارے معاشرے میں بدستور جاری رہتی ہیں۔ مثلاً ناجائز منافع خوری، جھوٹ، غیبت ، بہتان تراشی ، عیب جوئی، تمسخراور طعن وتشنیع وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طرح اللہ اور بندوں کی حقوق میں بے اعتدالی کا سلسلہ حسب معمول جاری رہتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ ہمارے سر کے اوپر سے گذرجاتا ہے اور یہ ہمارے اندر داخل نہیں ہوپاتا، ہمارے دل ودماغ اور روح میں جذب نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جو تبدیلی اللہ کو اپنے بندوں میں اس ماہِ مبارک کی برکت سے مطلوب ہے وہ نظر نہیں آتی اور جونہی ہلال عید طلوع ہوتا ہے، پہلے سے زیادہ آوارگی اور بد اخلاقی ، بے راہ روی کے مناظر نظرآتے ہیں۔الغرض رمضان واحد مہینہ ہے جس میں مسجدیں بھری ملتی ہیںاور یکم شوال سے مسجدوں میں بڑھنے والا رش آہستہ آہستہ کم ہوتا جاتا ہے، پھر کچھ دنوں کے بعد وہی گنے چنے پنج وقتہ چند نمازی ملتے ہیں، باقی رمضانی نمازی سوائے جمعہ اور عیدین کے نہیں نظر آتے ہیں۔شائد وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کتنے ہوشیار ہیں کہ ایک ماہ میں عبادت کرکے پورے سال کا ثواب لوٹ لیتے ہیں، جبکہ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ رمضان کے مہینے میں ایک کا ستر اور سات سو گنا تک جو اجر دیا جاتا ہے ،وہ ان لوگوں کو دیاجاتا ہے جو سال بھر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ دِل کو تسلی دینے کیلئے اُن کی یہ ایک احمقانہ سوچ ہے اور شیخ چلی کی طرح دِن کے اُجالے میں دیکھا گیا ایک خواب ہے۔ لہٰذا قوم کے لوگو!اللہ کی عبادت اگر کرنا چاہتے ہو تو خالص عبادت کرو، نام ونمود کیلئے ، لوگوں کو دکھانے کیلئے اور خود کو نمازی اور حاجی کہلوانے کیلئے عبادت مت کرو، ایسی عبادت کسی کام کی نہیں۔ عبادت کا مہینہ صرف رمضان کا ہی نہیں ہے، اللہ کی بندگی ہر روز اور ہمہ وقت کیلئے ہےم جو اس بات سے غافل رہا، اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
رابطہ۔6291697668