حمید اللہ شاہ حمید
خوش بخت شاعر پیر زادہ غلام احمد مہجور کے گیت اُن ہی کی زندگی میں وادی کشمیر کے شہر اور دیہات میںمقبول ہو گئے۔ کھیت کھلیانوں، میدانوں، سکولوں اور گانے کی محفلوں میں ان کے گانےساز اور دُھنوں کے ساتھ بجایا ئےجانے لگے۔ آج بھی یہ گانے ریڈیو اورمحفلوں میں سنائی دیتے ہیں۔جیسے :
صاحبو سَتھ چھَم میہ چانی وَ تھ میہ اصلچ ہاو تم۔وُلوہا باغوانو، بہارک شان پیدا کر۔ ہا گُلو تو ہی ژھانڈتون دلدار میون، شامل ہیں۔ان کے علاوہ مشہور نظم ’’گریسی کو ٗر‘‘کے ترجمے زبانِ زد عام ہوئےہیں۔ شائع شدہ کتابوں میں کشمیر کے نظاروں ،خوبصورتی کے ساتھ رومانوی گیتوں اور انقلابی نظموں نے کشمیری عوام کو متاثر ہوتے رہے۔ ’’گلشن وطن چھے سونے‘‘،’’باغ نشاط کے گلو‘‘1918سے مہجور کی نظموں کی چھوٹی کتابیںشائع ہونے لگیں۔ سرینگر کے پائیں علاقوں سے محمود شہری،ؔ اُن کے گیت سریلی آواز میں گاکر امیر اکدل تک یہ چھوٹی کتابیں بیجاکرتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی گلو کاروں کی آواز مہجور کے لکھے ہوئےگانے اور ترانے گرامافون پر ریکارڈ کرائے جاتے۔اُس دور میں ریڈ یوکشمیر سٹیشن کا بھی وجود نہ تھا اور نہ ہی ٹیپ کا چلن۔ نور محمد تاجران کتب سے اُن کی کتا بیں شائع ہوئیں ،بعد میں علی محمد اینڈ سنز بک سیلرنے مہجورؔ کی ہی زندگی میں،اس انقلابی شاعر اور ادیب کی تحقیقی کتاب ،کشمیری زبان اور شاعری کو تحریر کر کے اس کی شاعری اور ادبی خدمات کو اُجا گر کیا، جو قلمی صورت میں رہی ۔
شاعر کشمیر مہجور کے والد کا نام پیر عبد الاحد شاہ تھا اور والدہ کا نام سعیدہ بیگم۔مہجورؔ متری گام پلوامہ میں 11 اگست 1887ء کو پیدا ہوئےتھے۔ والدہ بچپن میں فوت ہوئی، ابتدائی تعلیم، قرآن و عربی اور فارسی اپنے گھر پرحاصل کی۔بچپن سے ہی قابل، ہوشیاراور اعلیٰ ذہانت کے مالک تھے، چنانچہ مزید تعلیم کے حصول کے لئے ترال گئے ۔پھر سرینگر کے انجمن نصرۃ الاسلام میں پڑھنے لگے ۔ تعلیم کے بعد پنجاب کارُخ کیا اوراپنےسفر کے دوران خوشنویسی اور صحافت میں مہارت حاصل کی۔ بسم اللہ امرتسری اور مولانا شبلی نعمانی جیسے علماء سے فارسی اور اُردو زبان کی مزید تربیت حاصل کی۔ اسی دور انہوں نےاپنا نام ، غلام احمد مہجور رکھا۔ 2 سال بعد یعنی 1907میںواپس کشمیر آکر پہلے اردو، پھر کشمیری زبان میں شاعری کرنا شروع کی ۔وہ پیر مریدی کا مسند سجانے کے بجائے محنت ومشقت کی روزی روٹی کھاناکے متمنی رہے تھے۔ مہجور کو محکمہ مال میں شجر کش کی ملازمت مل گئی اور ابتدائی طور پر انہیں2 سال کے لئے لد اخ بھیج دیا گیا۔اپنی ڈیوٹی کشمیر کے دور دراز مقامات بڈگام، ہندوارہ اور دیگر مقامات پربھی انجام دینا پڑی۔ ڈوگرہ حکومت نے اُن کی انقلابی وطنی شاعری کو ناپسندکر کے اُسے کسی قسم کی ترقی نہ دی ۔1910کے آس پاس اُن کی شادی ایک نیک خاتون مہتاب بیگم سے ہوئی۔ جن کے بطن سے اکیلی نریلی اولادمحمد امین پیدا ہوئے۔
رحیم صاحب صفاپوری اُن کے روحانی پیر رہے۔ اُن کی قلمی کتابوں میں ’حیات رحیم صاحب‘ ہے، چنانچہ مہجور صاحب کاآستان عالیہ پکھر پورہ آنا جانا رہتا تھا۔ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کی شاعرانہ اور ادبی سرگرمیاں بڑھنے لگیں۔ اسلئے ٹنکی پورہ سرینگر میں مکان خریدا۔1940میں اُن کے فرزند محمد امین کو بطور ایڈیٹر متعارف کر کے کشمیری زبان میں اخبار’’ گاش ‘‘شائع کیا۔مہجور کی خط و کتابت ڈاکٹر سر محمد اقبال ،محمد دین فوق، بنگالی شاعر را بندرناتھ ٹیگور ،افسانہ نگار سعادت منٹو اور فلم ایکٹر بلراج ساہنی سے رہی۔ کشمیر میں اُن لو مانے جانے والے بلند پایہ شاعر اور ادیب کے علاوہ حکمران بھی رہے ۔متری گام کے آستان عالیہ امیرکبیرؒ جنوب طرف کے آبائی رقبہ پر نئے طرزسے شاعر کشمیر مہجور ؔنے یک منزلہ مکان تعمیر کرایا تھا۔ اُس کے ایک حصہ میں قدیم مخطوطات،قلمی شعرائے کشمیر تاریخ،پٹوار نامہ،سفر نامہ لداخ، ڈائریاں، خطوط، بہارستان شاہی، غزلیات و نظمیں محفوظ کیں۔ آج بھی اس جگہ بمعہ غلاف میں محفوظ رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ مہجور کے ذاتی استعمال قلمدان، حقہ، چھڑی و غیرہ ( جس کا مشاہدہ کیا گیا ہے )محفوظ کیں۔
جموں و کشمیر میں 1947ء میں عوامی حکومت آنے کے بعد اُنہیں قومی شاعر تسلیم کر کے شاعر کشمیر کا خطاب دیا گیا۔ 1950ء میں دہلی میں منعقدہ آل انڈ یا رائٹرس میٹ میں شرکت کے واسطے سرینگرسے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ گئے۔8اپریل1952کوریاستی حکومت کی طرف سے اُنہیںپہلا ماہوار وظیفہ 150 روپے وصول متری گام پلوامہ پہنچا۔ 9اپریل 1952 کو دماغی رَگ پھٹنے سے مہجورصاحب کی موت ہوئی۔ اگلے روز نائب وزیر اعظم بخشی غلامم محمد نے متری گام پلوامہ پہنچ کر اُن کی قبر کشائی کر کے اُن کا جسد خاکی خانقاہ معلی سرینگر پہنچایا،پھر جلوس کی صورت میںگیارہ کلومیٹر دور جنوب برلب دریائے جہلم پاندریٹھن لےجایا گیا،جہاںاُنہیں 21 تویوں کی سلامی دے کر سرکاری اعزاز کے دفنا یا گیا۔ مہجور کی وفات کے بعد تعلیم یافتہ قابل ہو نہا ر انکی کی اکیلی اولاد محمد امین کو ریاستی حکومت نے محکمہ ریسر چ آثار قدیمہ میں اہم عہدے پر تعینات کیا۔
۔محمد امین سے 4اولادیں عبد الرشید، عبد الباری، خالد احمد اور ابدال مہجور ہوئے۔ ابدال مہجور ریڈ کو کشمیر سرینگر میں پروگرام ایکزیکیٹوکے طور رہے اور 3 سال بی بی سی لندن میں بھی کام کیا۔ عبد الرشید کے فرزندندیم مہجور صوفیت سے وابستہ ہیں۔ پلوامہ میںقایم سکول کا نام مہجور میموریل ہا ئرسکینڈری سکول، سرینگر کے علاقہ مہجور نگر اور مہجورپل نام رکھا گیا۔میڈیکل انسٹی چیوٹ صورہ میں مہجور وارڈبھی ہے۔ اتھوا جن میں مہجور چوک اسی شاعر سے منسوب ہے۔ شاعرکشمیر مہجور کی وفات کے چند سال بعد محکمہ اطلاعات نے اردو میگزین تعمیر کا مہجور نمبرنکا لا۔ 1982ء میں محکمہ نے دوسرا نمبر نکالا۔کلچرل اکیڈیمی نے کلیات مہجور ،اردو شیرازہ کا مہجور نمبر بھی منظر عام پر لایا۔ کئی اخبارات اور جرائدمیں مہجور پر مضامین چھپتے آئے۔ شاعر کشمیر مہجور وطن دوست سخن ور اور فطرت شناسا عنوان سے10اپریل 2014 کوکشمیر عظمیٰ میں حمید اللہ حمید کا مضمون چھپا۔ یہی مضمون 2016 ء اور 2019 ءمیں بھی اخبار میں شائع ہوا۔راقم کا9اپریل2024 کو اسی روزنامے میں شاعر کشمیر مہجور کی عظمت عنوان سے مضمون چھپا۔
مہجور وہ پہلے کشمیری شاعرہیں جن پر اردو اور کشمیری میںفیچر فلم شاعر کشمیر مہجور بنی ۔ممبی کے فلم پرڈیوسرپربھات مکھرجی نے مہجور کے دوست بلراج ساہنی کی خواہش پر وزیر اعلی غام محمد صادق کی اجازت اور مالی امداد سے وہ میں فلمایا،جس میں ریڈیو کشمیرکے فنکاروں بشمول پر ان کشور، شاہد بڈگامی کے علاوہ بلراج ساہنی، پریکشت ساہنی اور کلپناکمارنے کام کیا۔1972میں ریگل سینما سرینگر اور صمد ٹاکیز سوپور فلم کی نمائش کی گئی۔ کئی برسوں تک محکمہ انفارمیشن کے فلم ڈویژن نے دیہی علاقوںمیں فلم کی نمائش کرائی۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے محکمہ ڈاک سے مہجور ٹکٹ جاری کی ۔ابدال مہجور کی سربراہی میںمہجور فاونڈیشن کئی برسوں سر گرم عمل ہے۔پٹوار نامہ کو شائع کیا گیااور رسالہ گائش ہر سال چھپتاہے۔
(مضمون نگار محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کے صدر اور سابق انفارمیشن آفیسر ہیں،موبائل نمبر9419086920)