عظمیٰ نیوز سروس
جموں//نیشنل کانفرنس، کانگریس، پی ڈی پی اور دیگر اراکین کی جانب سے وقف(ترمیمی)ایکٹ پر بحث کے لیے سپیکر کی جانب سے کارروائی ملتوی کرنے کی اجازت نہ دینے پر جموں و کشمیر اسمبلی کی کارروائی منگل کو دن بھر کے لیے دوسری بار ملتوی کردی گئی۔ٹریژری بنچوں بشمول وزرا نے ایکٹ پر بحث کا مطالبہ کرتے ہوئے پی ڈی پی کے مطالبے میں شمولیت اختیار کی۔ سپیکر کی جانب سے ان کے مطالبے کو مسترد کیے جانے کے بعد ٹریژری بنچوں نے ایوان کو مسلسل دوسرے دن بھی کام کرنے نہیں دیا۔ جیسے ہی ایوان کا اجلاس شروع ہوا، سلمان ساگر، تنویر صادق اور پیپلز کانفرنس کے رکن سجاد غنی لون کی قیادت میں این سی کے ارکان نے ایوان میں ایکٹ پر بحث کے لیے اجلاس کی کارروائی ملتوی کرنے کا مسئلہ اٹھایا۔جیسے ہی سپیکر عبدالرحیم راتھر نے ان سے وقفہ سوال شروع کرنے کو کہا، تو این سی کے ارشاد رسول کارکے علاوہ دیگر اراکین،، کانگریس، پی ڈی پی اور آزاد امیدوار ایوان کے کنویں میں نعرے لگاتے ہوئے “کالے قانون” کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے گھس گئے۔شور مچانے والے مناظر کے درمیان پی ڈی پی کے رکن وحید الرحمان پہ ایوان کے ویل میں داخل ہوئے اور اپنی پارٹی کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کو فوری طور پر منظور کرنے کا مطالبہ کیا۔جیسے ہی پرہ نے قرارداد کی کاپی ہاتھ میں لے کر اس کی منظوری کے لیے دبائو ڈالا، تواین سی لیڈر عبدالمجید لارمی نے ان پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا، جس سے شیخ خورشید سمیت این سی کے اراکین اور اپوزیشن کے دیگر قانون سازوں کے درمیان گرما گرم زبانی تبادلہ ہوا۔جب پرہ نے ایوان کے کنویں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سپیکر نے مارشلز کو انہیں باہر نکالنے کی ہدایت کی۔ پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون نے انہیں بے دخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔پرہ نے ایوان کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ “میں بل پر ایوان میں قرارداد کی منظوری کا مطالبہ کر رہا تھا۔ سپیکر کی جانب سے مجھے ایوان سے ہٹانا بدقسمتی کی بات ہے، یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے، ہمارے ایوان میں 60 سے زیادہ مسلم قانون ساز ہیں، لیکن ہم اس قرارداد پر بحث اور منظوری نہیں دے سکتے،” ۔این سی، کانگریس اور آزاد ایم ایل ایز کے9ارکان نے پیر کو اس مسئلہ پر بحث کے لئے کارروائی ملتوی کرنے کے لئے اسپیکر کو نوٹس پیش کیا تھا۔ ہنگامہ آرائی کے باعث ایوان کی کارروائی دو دن کے لیے ملتوی کر دی گئی۔منگل کوصورتحال مزید افراتفری کی طرف اس وقت بڑھ گئی، جب این سی ایم ایل ایز اور سجاد لون کے درمیان شدید لفظی جھگڑا ہوا۔ لون نے کہا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ قرارداد منظور کی جائے، یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے۔”انہوں نے این سی پر ڈرامہ بازی کا الزام لگایا اور کہا، “یہ ستم ظریفی ہے کہ این سی کے قانون ساز صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لییاپنے ہی سپیکر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ سپیکر کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔شور مچانے والے مناظر کے درمیان، این سی ارکان نذیر گریزی، سلمان ساگر اور تنویر صادق نے سپیکر پر زور دیا کہ وہ ارکان کے جذبات پر غور کریں کیونکہ وہ مذہبی معاملے سے متعلق ہیں اور بحث کی اجازت دیں۔گریزی نے کہا، “ہم اس مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں، یہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے، یہ ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے،براہ کرم بحث کی اجازت دیں۔”سپیکر نے کہا کہ معاملہ زیر سماعت ہونے کی وجہ سے تحریک کو مسترد کر دیا گیا۔ سپیکر نے کہا کہ جو کام پارلیمنٹ نے کیا ہے اسے آپ کالعدم نہیں کر سکتے، اس پر کوئی بحث نہیں ہو سکتی، میں نے کسی بحث کی اجازت نہیں دی۔ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہونے پر سپیکر نے ابتدائی طور پر کارروائی 30 منٹ کے لیے ملتوی کر دی۔التوا کے بعد جب ایوان دوبارہ شروع ہوا تو ٹریژری بنچوں اور پی ڈی پی ارکان نے اس مسئلہ پر بحث کا مطالبہ جاری رکھا۔جموں و کشمیر حکومت نے کہا کہ اسے وقف (ترمیمی) ایکٹ پر تحفظات ہیں اور انہوں نے سپیکر راتھر پر زور دیا کہ وہ ایوان میں اس پر بحث کرائیں۔نائب وزیر اعلی سریندر چودھری نے ہنگامہ آرائی کے درمیان ایوان کو بتایا کہ “اس حکومت کو عوام نے منتخب کیا ہے، اراکین کو عوام نے منتخب کیا ہے، اگر یہ اراکین کی فکر ہے تو یہ حکومت کی بھی فکر ہے،ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حکومت کی فکر نہیں ہے”۔سیکشن 58، ذیلی قاعدہ 9 کا حوالہ دیتے ہوئے، سپیکر نے کہا، “تحریک کا تعلق کسی ایسے معاملے سے نہیں ہوگا جو بنیادی طور پر حکومت کی فکر نہیں ہے، اگر یہ اس حکومت کی فکر نہیں ہے، تو تحریک کو نہیں اٹھایا جا سکتا۔” اس سے اراکین کی طرف سے زبردست احتجاج شروع ہوا، جنہوں نے میزیں تھپتھپائیں اور نعرے لگائے۔اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر زراعت جاوید ڈار اور وزیر سکینہ ایتو نے کہا کہ یہ حکومت کی تشویش ہے۔این سی کے نذیر گریزی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے، بحث کی جا سکتی ہے۔تاہم، بی جے پی کے رکن شام لال شرما اور پیپلز کانفرنس کے رکن سجاد لون نے احتجاج کرنے والے ٹریژری بنچوں سے کہا کہ وہ سپیکر کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لائے۔ہنگامہ آرائی جاری رہنے پر سپیکر نے ایوان کی کارروائی ایک بجے تک ملتوی کر دی۔ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہونے کے بعد، این سی کے مبارک گل اپنے بنچ سے کھڑے ہوئے اور سپیکر پر زور دیا کہ وہ اس اہم معاملے پر بحث کی اجازت دیں، یہ کہتے ہوئے کہ اس میں مذہبی جذبات شامل ہیں۔گل نے راتھر کو کہا’’ اچھا ہو گا کہ اراکین کو اس پر بولنے کی اجازت دی جائے‘‘۔تاہم، بی جے پی کے رکن شام لال شرما نے بحث اور ایوان کے التوا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور قاعدہ کتاب کے مطابق تحریک التوا کو مسترد کر دیا ہے۔انہوں نے کہا”حکومت بھی ان میں شامل ہو گئی ہے، جو ماضی میں ایسا نہیں تھا، ایوان کو ٹریژری بنچوں کے ذریعے کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے،” ۔شرما نے کہا کہ اگر اراکین اور حکومت کو سپیکر پر بھروسہ نہیں ہے تو انہیں ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانی چاہیے۔ “ایک نئے سپیکر کو اس پر فیصلہ کرنے دیں،” ۔ٹریژری بنچوں نے اپنا احتجاج جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وہ ایکٹ پر التوا اور بحث چاہتے ہیں۔بی جے پی نے غنڈہ گردی نہیں چلے گی، بات چیت کی گنجائش نہیں اور ڈرامابازی بندکرو جیسے نعرے لگائے، جن کا این سی ارکان نے چند منٹوں تک جواب دیا۔سپیکر نے کہا کہ ان کا فیصلہ حتمی ہے اور اسے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد انہوں نے ایوان کی کارروائی دن بھر کے لیے ملتوی کردی۔