فکر و فہم
قیصرمحمود عراقی
علم انسان کا دوسرا نام ہے اور علم کتاب میں ہے اور کتاب آجکل لائبریریوں اور بک شاپس میں ہی مل سکتی ہیں۔ ماضی میں کتاب پڑھنے والوں کے سرہانے دھری رہتی تھی، کتاب ماضی میں پڑھے لکھے لوگوں کا رومانس تھا، شغل تھا، مزہ تھااور وقت گذاری کااچھا ذریعہ تھا۔ آج تو طلبا بھی کتاب خریدنے یا لائبریری سے حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ایسے میں کہا جاتا ہے کہ جہالت پھیل رہی ہے، کیسے نہ پھیلے جہالت۔ علم کی روانی جب تک سماج میں پھیلایا ہی نہیں جائے گا، جہالت کے اندھیرے کب اور کیسے ختم ہونگے۔ کتاب کو انسان کا سب سے اچھا دوست قرار دیا جاتا ہے مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ خود اس دوست سے دشمنی کی جارہی ہے۔ کسی پڑھے لکھے شخص سے پوچھیںکہ اس نے آخری کتاب کب خریدی تھی یا اس نے آخری کتاب کب پڑھی تھی؟ پہلے سوال پر توخود ہی آپ کو مشکوک انداز میں دیکھا جائے گاکہ بھلا یہ بھی کوئی سوال ہوا، کتاب کون خریدتا ہے، مہنگائی کا رونا رویاجائے گا کہ بھائی آلو ،ٹماٹر ، دال چاول کے بھائو معلوم ہیں؟ بجلی اور گیس کے بلوں سے واقف ہو ؟کتاب پڑھنے کا پوچھوتو آگے سے معصومانہ سا جواب آئےگاکہ بھائی وقت کہاں ہوتا ہے کہ لائبریری سے کتاب لائی جائے اور پھر پڑھی بھی جائے، اتنے جو کام کرنے پڑتے ہیں، دفتر وکاروبار کے مسائل ، گھر کے دھندے، کہاں سے وقت نکالیں کہ اب کتاب بھی پڑھیں۔
میں کہتا ہوں کہ اگر ہم بحیثیت قوم کسی چیز میں خود کفیل ہیں تو وہ وقت ہی ہے۔ ہم وقت کی دولت سے مالامال ہیںاور اتنے سخی کہ اس قیمتی چیز کو لٹاتے پھرتے ہیں۔ ہم گھنٹوں ٹی وی کے آگے منھ کھولے بیٹھے رہتے ہیں، الم غلم جوبھی آئے دیکھتے رہتے ہیں، بے مقصد ڈراموں کو پورے شوق سے دیکھ کر وقت ضائع کرتے ہیں، گھنٹوں سیل فون پر میسج پڑھتے اور بھیجتے ہیںاور ان کے علاوہ اور بہت سے بے معنی کام کرتے ہیںمگر کتاب نہیں پڑھتے۔ دنیا کی واقعی اور صحیح معنوں میں مصروف قوموں نے ابھی تک کتاب سے رشتہ نہیں توڑا لیکن ہم لوگوں نے کتاب سے لاتعلقی اختیار کرلی ہے، جب کہ کتاب تو سماج میں نئی سوچ کو لیکر آتی ہے۔ ہم ہر فارم پر تبدیلی کی بات کرتے ہیںمگر تبدیلی کیسے آئے گی، جب شعور سے عاری ہونگے۔ مصیبت یہ ہے کہ شعور تو علم کا محتاج ہوتا ہے اور علم کتاب میں پڑا ہوتا ہے، مگر شعور کی جستجوکسے ہیں، ہم تو بس مادہ پرستی کی بھیڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑ کر، کہنیاں مار مار کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، وہ بھی سب سے آگے۔ خدا کیا ہے ؟ خدا ہم سے کیا چاہتا ہے؟ موت کیاہے؟ دین کیا ہے؟ سکون کیا ہے؟ ہم کچھ نہیں جاننا چاہتے، بس پیسہ ، بینک بیلنس اور تعیش ہی سب کچھ ہے ہمارے لئے اور اس کے پیچھے اندھا دُھند بھاگا جارہا ہے۔ روحانیت ، دل کا سکون ، امن وآشتی ہمارے مسائل ہی نہیں ،ٹی وی ، انٹر نیٹ، سیل فون یہ سب اِنٹرومنٹ ہیں۔
قارئین محترم! مطالعہ کتب یعنی کتب بینی کسی بھی ملک وقوم کی تعمیر وترقی میں اہم اور بنیادی اقدار ادا کرتے ہیں، قوموں کے عروج وزوال کی بنیاد اس قوم کے لوگوں کے بنیادی اقدار ہی ہوتے ہیں۔ چونکہ علم ہمیشہ علم کا امام ہوتا ہے، لہٰذا بنیادی اقدار صحیح علم سے ہی آتے ہیں۔ مطالعہ کتب علم حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے، وسیع ودقیق مطالعہ کئے بغیر انسان کا ذہن ، ادراک اس کی سطح تک رسائی نہیں پاسکتا جہاں سے وہ مفید ومضر اور اعلیٰ وادنیٰ کے بیچ کا فرق جان سکے۔ مدارس ، اسکول، کالج اور یونیورسٹی طالب علم کو علم ودانش کی دہلیز پر لا کھڑا کرتے ہیںلیکن علم کی طلب کا اصل سفر اس کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے جو ایک طالب علم کو اپنی شوق اور لگن سے پوراکرنا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بخارا کا ایک بادشاہ کسی مرض میں مبتلا ہوگیا،شاہی طبیب نے بہت علاج کیالیکن مرض کی شدت میں کمی نہ آئی، چنانچہ شاہی طبیب میں اعلان کرادیا جو شخص بادشاہ کا علاج کرے گا، اُسے منہ مانگا انعام دیا جائےگا۔ اعلان سن کر بہت سے لوگ علا ج کرنے کی غرض سے آئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ آخر ایک دن ایک سترہ سال کی عمر کا ایک لڑکا دربار میں حاضر ہوا ، اُس نے بادشاہ کا علاج کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ شاہی طبیب نے اسے دیکھ کر بولاکہ بڑے بڑے حکیم اور طبیب بادشاہ کا علاج کرکے تھک گئے ہیںاور تم تو ابھی لڑکے ہو۔ یہ سُن کر اس لڑکے نے کہا،میں تو اتنا جانتا ہوں کہ کوئی مرض لاعلاج نہیں ہے۔ آخر اسے علاج کی اجازت مل گئی، علاج شروع ہوااور لڑکے علاج سے بادشاہ کے مرض میں کمی آتی گئی یہاں تک وہ بالکل تندرست ہوگیا۔ بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس نے لڑکے سے کہا مانگو کیا مانگتے ہو ۔ اب ہر شخص کے ذہن میں تھا کہ یہ لڑکایاہیرے جواہرات مانگے گا یا آدھی سلطنت کا مطالبہ کرے گا، لیکن لڑکےنے کہا بادشاہ سلامت !آپ مجھے اپنی ذاتی لائبریری سے چند عظیم کتابیں پڑھنے کیلئے دے دیں، لڑکے کی خواہش سن کر سب حیران رہ گئے۔ یہ سترہ سال کا لڑکابعد میں عظیم طبیب ومشہور ریاضی داں’’بوعلی سینا‘‘بنا۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علم اور مطالعہ کی اہمیت انسانی زندگی میں کس قدر ہے۔ کتابوں کے مطالعہ کے بعد ہی انسان اپنی صلاحیت کا سکہ جماتا اور سماج اور معاشرے میں اپنی شبیہہ اور پہچان بناتا ہے اور پھر قوم وملت کے نظر میں معتبر اور محترم ہوتا ہے۔
کتب بینی انسانی مشاغل میں سے ایک بہترین مشغلہ ہے، کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے بلکہ انسان کی غمخوار ومددگار ، انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والاقندیل ، علم وآگہی کا بہترین زینہ ، تنہائی کی جاں گسل ، طوالت کی بہترین رفیق ، زندگی کی ناہموار راہوں میں دل نواز ہمسفر اور اس اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے۔ مطالعے کی اہمیت کا اندازہ آپ مفکرین کے ان اقوال سے لگاسکتے ہیں۔ مطالعہ انسان کیلئے اخلاق کا معیار ہے(علامہ اقبال ) ۔بُری صحبت سے تنہائی اچھی ہے لیکن تنہائی سے پریشان ہوجانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کا مطالعے کی ضرورت ہے(امام غزالی)۔ ورزش سے جسم مضبوط ہوتا ہے اور مطالعے کی دماغ کیلئے وہی اہمیت ہے جو ورزش کی جسم کیلئے (ایڈسن )۔ مطالعہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے(بیکن)۔ دماغ کیلئے مطالعے کی وہی اہمیت ہے جو کنول کیلئے پانی کی(تلسی داس)۔ جو نوجوان ایمانداری سے کچھ مطالعہ میں صرف کرتا ہے ، تو اسے اپنے نتائج کے بارے میںبالکل متفکر نہیں ہونا چاہئے(ولیم جیمز)۔ وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے(میکالے)۔ کتب بینی کی انہی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تشنگان علم کیلئے ، ہر صوبہ میں ، ہر شہر میں کتب میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کتب بینی کی جائے۔ اس سے یہ ثابت ہو ا کہ طالب علم کو اگر بہتر ماحول دیا جائے تو کتب بینی کی طرف زیادہ سے زیادہ گامزن کرسکتے ہیں۔
رابطہ۔6291697668