یو این آئی
بیت المقدس// فلسطین کی پٹی غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری نے ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کر دیا ہے، جہاں صرف ایک ہفتے کے اندر 270 سے زائد معصوم بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد ان معصوموں کی ہے جن کا تنازع سے کوئی تعلق نہیں، سوائے اس کے کہ ان کا فلسطینی ہونا صہیونیوں نے جرم قرار دے دیا ہے۔تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی گولہ باری کے نتیجے میں نہ صرف سیکڑوں بچے ہلاک ہوئے ہیں بلکہ ایک ہزار سے زیادہ یتیم ہو چکے ہیں، جب کہ ہزاروں دیگر بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ غزہ میں بچوں کو بمباری کے ساتھ ساتھ بھوک اور ادویات کی کمی کا بھی سامنا ہے، کیوں کہ اسرائیلی فورسز انسانی بنیادوں پر امدادی سامان کی ترسیل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔سیو دی چلڈرن کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ کوئی معمولی جنگ نہیں بلکہ بچوں کے خلاف ایک منظم نسل کشی ہے۔ ہم عالمی برادری سے سوال کرتے ہیں کہ کیا بچوں کی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں؟انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے بچوں کا المیہ دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے، جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ زندہ بچ جانے والے بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہوتا جا رہا ہے۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی جارحیت میں60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جب کہ سوا لاکھ سے زائد افراد زخمی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری نے فوری طور پر اس بحران پر توجہ نہ دی تو غزہ میں انسانی المیے کے مزید بھیانک پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔