اسد مرزا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’عاجزی‘‘ اور’’لچک‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے اور یہ بتاتے ہوئے کہ وہ ’’پہلے سے کہیں زیادہ تیار‘‘لگ رہے ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے ذہن میں اچھی طرح سے طے شدہ اقدامات کے ساتھ ایک واضح روڈ میپ ہے، جسے ان کے واضح اہداف کی طرف لے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہےاور یہ کہ وہ ’’امریکہ پہلے‘‘ لیے ہیں جب کہ ’’میں ہندوستان کے لیے سب سے پہلے کھڑا ہوں‘‘۔یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ٹرمپ کے America Firstاور مودی کے India First نظریے میں کافی فرق ہے، پہلا جارحیت کے ذریعے جبکہ دوسرا مفاہمت کے ذریعے اپنے اہداف پانا چاہتے ہیں۔ پوڈ کاسٹر لیکس فریڈمین کے ساتھ مختلف موضوعات پر بات چیت میں، مودی نے ہند۔چین تعلقات، روس ۔یوکرین جنگ، اور ہند۔پاک تعلقات پر بات کی لیکن ان کے پوڈ کاسٹ کا زیادہ تر حصہ ٹرمپ کی تعریف کرنے کے لیے وقف تھا۔ غالباً اس کی ایک وجہ اپنے امریکی دورے کے دوران ہندوستان کے لیے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرپانے کی وجہ سے شاید وہ ٹرمپ کی انا کو تسکین پہچانے کی کوشش کررہے تھے۔صدر ٹرمپ کے بارے میں، انہوں نے ستمبر2019 میں ہیوسٹن میں ہونے والے ’ہاؤڈی مودی ‘پروگرام کو یاد کیا جس میں ان کا کہنا تھا ’’صدر ٹرمپ اور میں دونوں وہاں تھے اور پورا اسٹیڈیم بھرا ہوا تھا،ہم دونوں نے تقریریں کیں اور وہ نیچے بیٹھ کر میری بات سن رہے تھے، یہ ان کی عاجزی تھی۔‘‘گزشتہ سال جولائی میں ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، میں نے وہی لچکدار اور پرعزم صدر ٹرمپ کو دیکھا، جو اس اسٹیڈیم میں میرے ساتھ ہاتھ ملا کر چلتے رہے، وہ امریکہ کے لیے غیرمتزلزل نظریہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے، مودی نے کہا، جس لمحے میں نے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا، وہ فوراً ہی مجھے وائٹ ہاؤس کے دورے پر لے گئے، میں نے دیکھا کہ وہ کوئی نوٹ یا کیو کارڈ نہیں پکڑے ہوئے تھے،اور نہ ہی کوئی ان کے ساتھ تھاجو کہ ان کی مدد کرسکے۔اس کا ایک واضح مطلب یہ تھا کہ کس طرح امریکی سیاست داں امریکی صدارت کا کتنا احترام کرتے ہیںاور ساتھ ہی وہ امریکہ کی تاریخ سے کس قدر گہرا اور وسیع تعلق رکھتے ہیں اور اسے یاد رکھتے ہیں۔مودی نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کے جیتنے کے بعد چار سال گزر گئے، لیکن اس دوران جب بھی ہم دونوں کے کسی جاننے والے سے ٹرمپ کی ملاقات ہوئی اور ایسا درجنوں بار ہوا ہو گا، وہ کہتے تھے، مودی میرے دوست ہیں، ان کو میرا سلام پیش کریں۔’اس قسم کا اشارہ یا تعلق دو سیاست دانوں میں بہت کم ہوتا ہے اگرچہ ہم برسوں ایک دوسرے سے ملے نہیں، لیکن ہمارے درمیان براہ راست اور بلاواسطہ اعتماد کا رشتہ برقرار ہے۔
ایک اچھے مذاکرات کار ہونے پر ٹرمپ کی جانب سے تعریف کئے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پر، انہوں نے کہا، ’’یہ ان کی بہت مہربانی ہے کہ وہ مختلف مواقع پر میری تعریف کرتے ہیں، لیکن جب بات بات چیت کی ہو، میں ہمیشہ اپنے ملک کے مفادات کو ترجیح دیتا ہوں، اسی لیے میں کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ نقصان نہ پہنچانے کے لیے کام کرتا ہوں۔ ‘‘
امریکہ میں ایلون مسک، جے ڈی وینس اور دیگر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں انہوں نے کہا، ’’میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے صدر ٹرمپ کو ان کے پہلے دور میں بھی دیکھا ہے اور اب اس بار وہ پہلے سے کہیں زیادہ تیار نظر آتے ہیں۔ مضبوط، قابل گروپ اور اپنی مضبوط ٹیم کے ساتھ، میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ ٹیم صدر ٹرمپ کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔‘‘
ہندوستان۔ چین تعلقات : مودی نے کہا کہ ہندوستان اور چین اب حالات کو بحال کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں جیسے وہ2020 سے پہلے تھے۔یہ سچ ہے کہ ہمارے درمیان سرحدی تنازعات ہیں اور2020 میں، ہمارے ممالک کے درمیان بڑی کشیدگی پیدا ہوئی، تاہم، ہم 2020 سے پہلے کے حالات کو بحال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، گو کہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔ ہمارا تعاون صرف فائدہ مند نہیں ہے، یہ عالمی استحکام اور خوشحالی کے لیے بھی ضروری ہے۔اور چونکہ 21ویں صدی ایشیا کی صدی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان اور چین ایک صحت مند اور قدرتی انداز میں مقابلہ کریں۔ مقابلہ کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن اسے کبھی بھی تنازعہ میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
روس ۔یوکرین جنگ : مودی نے کہا کہ روس۔ یوکرین جنگ تبھی ختم ہوسکتی ہے جب ایک مشترکہ قرار داد سامنے آئے اور جب یوکرین اور روس دونوں مذاکرات کی میز پر آئیں۔ میرے روس اور یوکرین کے ساتھ یکساں تعلقات ہیں اور میں صدر پوتن کے ساتھ بیٹھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ جنگ کا وقت نہیں ہے اور میں صدر زیلنسکی کو یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں جتنے بھی لوگ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں، میدانِ جنگ سے کبھی بھی کوئی قرارداد حاصل نہیں کی جاسکتی،اس کے لیے باہمی مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔
ہندوستان۔ پاکستان تعلقات : پڑوسی ملک پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پی ایم مودی نے کہا:’’بار بار انہوں (پاکستان) نے ہندوستان کے ساتھ اختلاف کرنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے ہمارے خلاف پراکسی جنگ چھیڑ رکھی ہے اور واضح طور پروہ علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیںاور جب تک پاکستان دہشت گردی سے اپنا تعلق ختم نہیں کرتا ہے، تب تک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے۔‘‘مجموعی طور پر دیکھا جائے توایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ انٹرویو پہلے سے طے شدہ پلاننگ کے تحت کیا گیا تھا، کیوں کہ گزشتہ دس سال میں پی ایم مودی نے کسی ہندوستانی صحافی سے بات نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی پریس کانفرنس سے خطاب کیا ہے۔ لیکن جتنا طویل وقت انھوں نے فریڈ مین کو دیا اور جس طرح AI کی مدد سے ان کے جوابوں کا ترجمہ کیا گیا ، انٹرویو کے ایڈٹ ہونے سے محض چند گھنٹوں بعد ہی صدر ٹرمپ نے انٹرویو کا لنک اپنے سوشیل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پرڈال دیا ،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس انٹرویو سے کچھ خاص نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔انٹرویو میں جس طریقے سے پی ایم مودی نے صدر ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے ،اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت ہندوستان امریکہ کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا ہے۔ کیونکہ نہ ہی اپنے امریکی دورے کے دوران اور نہ ہی اس انٹرویو میں پی ایم مودی نے ہندوستانی اشیا کی برآمدات پر امریکہ کی جانب سے محصولات بڑھانے پر کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی ہند۔امریکہ باہمی تجارت کے سلسلے میں بات کی اور نہ ہی ہند۔پیسفک علاقے میں چین کے خلاف ہندوستان کے کسی ممکنہ رول پر کوئی بات کی۔یعنی کہ کُل ملا کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ انٹرویو صرف صدر ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیا گیا تھا، نہ
ہند۔امریکہ تعلقات کو آگے لے جانے کی غرض سے۔
دراصل اپنے دوسرے دورِ صدارت میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جو رویہ اپنایا ہے، اس نے عالمی سطح پر تمام ممالک اور سیاسی رہنماؤں کو ایک طریقے سے مضطرب کردیا ہے، کیونکہ صدر ٹرمپ کا ہر اعلان بالکل غیر متوقع طور پر سامنے آتا ہے اور اس کے بعد اپنے نئے اقدام کی تائید میں وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ کسی کے بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے لیکن جیسا کہ ان کے ایک ناقد نے حال ہی میں تبصرہ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی اول جلول باتوں کو غور سے سنا جائے تو اس میں ایک سچائی یا عملی پہلو صاف نظر آتا ہے۔ شاید ان کے ناقد کا اشارہ صدر ٹرمپ کے ماگا کیمپئن کی طرف ہے جس کے ذریعے وہ ریاست ہائے متحدہ میں سرکاری فضول خرچی پر لگام کس کر امریکہ کو پھر دوبارہ دنیا کا سرِ فہرست ملک بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس خواہش کے لیے وہ جو فیصلے لے رہے ہیں وہ عام فہم سے باہر ہیں کیونکہ یہ پورا کھیل ایک کارپوریٹ فلسفے کے طور پر کھیلا جارہا ہے جس میں کہ صدر ٹرمپ ایک ماہر کھلاڑی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کیا، کس طریقے سے حاصل کرنا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)