عظمیٰ یاسمین
تھنہ منڈی// بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی (BGSBU) اس وقت شدید بحران سے دوچار ہے، جہاں تدریسی عملہ اور انتظامیہ کے درمیان تنازعات تعلیمی ماحول کو بری طرح متاثر کر چکے ہیں۔ اساتذہ نے اپنے دیرینہ مطالبات کی عدم منظوری کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کر رکھی ہے، جس کے باعث یونیورسٹی کے معمولات مکمل طور پر درہم برہم ہو چکے ہیں۔ یونیورسٹی کے تدریسی عملے کا مؤقف ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے مسلسل بے ضابطگیوں، غیر شفاف پالیسیوں اور ناانصافی کے باعث وہ احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاتا، احتجاج ختم نہیں ہوگا۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ یونیورسٹی میں میرٹ اور شفافیت کی بحالی چاہتے ہیں تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔ انتظامیہ کی جانب سے اس سنگین بحران کے حل کے لئے کوئی مؤثر اقدامات سامنے نہیں آئے۔ اگرچہ حکام کا دعویٰ ہے کہ مسئلے کو جلد حل کر لیا جائے گا، مگر تاحال کوئی عملی پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی۔ ماہر تعلیم اور دانشور خورشید بسمل نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹی کے خلاف کچھ مخصوص عناصر سازش کر رہے ہیں تاکہ اس ادارے کو کمزور کیا جا سکے۔ اس موقع پر معروف دانشور اور ماہر تعلیم خورشید بسمل کا کہنا ہے کہ احتجاج اور بھوک ہڑتال کے باعث طلباء سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور تدریسی سرگرمیوں کی معطلی کے سبب ان کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے، جبکہ امتحانات کے التوا نے ان کے تعلیمی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ والدین بھی اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر شدید پریشان ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ باہمی مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو فوری طور پر حل کریں۔ وہیں تھنہ منڈی اور خطہ پیر پنچال کے عوامی حلقے، دانشور، سابق طلبہ اور سماجی رہنما اس بحران پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ خورشید بسمل سمیت کئی ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر اس بحران کو جلد حل نہ کیا گیا تو اس کے دور رس منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ خورشید بسمل کا مزید کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے اس بحران کا فوری حل نکالنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر انتظامیہ اور تدریسی عملہ کسی درمیانی راہ پر نہ آئے تو طلبہ کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو بھی اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے تاکہ یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول بحال ہو اور طلبہ کا مستقبل محفوظ رہے۔