گزشتہ 2 برسوں میں 4.40 کروڑ سیاحوں کی آمد
جموں// ریاستی اسمبلی میں این سی اور بی جے پی کے قانون سازوں کے درمیان نوک جھونک کے بعد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے منگل کو کہا کہ کشمیر کے منقسم حصوں کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے کیونکہ چین کی طرف سے پاکستان کی حمایت کے باوجود سرحد کے اس پار کی صورتحال “بہت خراب” ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا ہر حصہ بہت ترقی یافتہ ہے حالانکہ ہم نے اپنی سڑکوں کی تعمیر کے لیے کبھی چین، امریکہ، انگلینڈ یا فرانس سے مدد نہیں مانگی۔وزیراعلیٰ نے یہ ریمارکس اپوزیشن بی جے پی اور حکمراں نیشنل کانفرنس کے ارکان کو پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے)میں ہونے والی ترقی پر گرما گرم الفاظ کا تبادلہ ہوا۔عبداللہ نے کہا کہ سرحد پار کے علاقوں میں جو بھی ترقی ہوئی ہے وہ چین کی مہربانیوں سے ہوئی ہے۔وقفہ سوالات کے دوران سابق وزیر سیف اللہ میر نے کہا کہ سرحدی انفراسٹرکچر اس طرف کے مقابلے سرحد کے اس پار بہتر ہے، یہاں تک کہ انہوں نے کپواڑہ ضلع میں کیرن اور جمہ گنڈ کے سرحدی علاقوں کو ہمہ موسمی رابطہ فراہم کرنے کے لیے ایک سرنگ کی تعمیر کی وکالت کی۔بی جے پی کے آر ایس پٹھانیہ نے ان کے دونوں فریقوں کا موازنہ کرنے پر اعتراض کیا۔این سی ایم ایل اے نذیر گریزی اور پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون، میر کے دفاع میں آئے، جنہوں نے مقامی لوگوں کو درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی، خاص طور پر سردیوں کے دوران جب سڑکیں کئی مہینوں تک برف سے کٹ جاتی ہیں۔لیفٹیننٹ گورنر کے خطاب پر بحث کے دوران جب بی جے پی رکن شام لال شرما بول رہے تھے، میر اپنی نشست سے اٹھے اور پٹھانیہ کو غدار کہنے پر سوال کیا۔انہوں نے کہا کہ میرا مقصد کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان موازنہ کرنا نہیں تھا۔ نیشنل کانفرنس ایک ایسی جماعت ہے جس نے ملک کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے کارکنان، ایم ایل اے اور وزرا کو ملی ٹینٹوںنے مار ڈالا۔گریزی بھی میر کے دفاع میں اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا اگر کسی نے کوٹ پہنا ہے تو کیا غلط ہے جب میں کہوں کہ اس کے پاس اچھا کوٹ ہے۔صورتحال کو قابو سے باہر ہوتے محسوس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے اراکین سے اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی درخواست کی اور کہا کہ گریزی اپنے بیان میں غلط نہیں ہے لیکن انہوں نے اپنی بات مکمل نہیں کی۔عبداللہ نے کہا کہ سرحدوں پر جو کچھ کیا گیا ہے وہ دکھاوے کے لیے ہے اور یہ بھی ان(پاکستان)نے خود نہیں کیا۔ سرحد پار سرحدی علاقوں میں جو بھی ترقی ہوئی وہ چین کی آشیرواد کی وجہ سے ہوئی جبکہ باقی علاقوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ترقی بحث کا معاملہ ہو سکتا ہے لیکن میر، جو لائن آف کنٹرول کے قریب رہتے ہیں، جو کچھ وہ دیکھتے ہیں اسے شیئر کرنے میں غلط نہیں ہے۔انہوں نے کہا”وہاں (پی او کے میں)صورتحال بہت خراب ہے ہم نے کبھی کسی دوسرے ملک سے مدد نہیں مانگی، ہم نے چین، امریکہ، انگلینڈ یا فرانس سے سڑکیں بنانے کے لیے نہیں کہا۔ سرحد کے اس پار سڑکیں چین نے بنائی ہیں” ۔، انہوں نے مزید کہا، جموں و کشمیر کے ہر حصے میں ترقی ہوئی ہے یہاں تک کہ “ہم نے اپنے سرحدی لوگوں کو کوٹ فراہم نہیں کیے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ سرحد پار لوگوں کو دیے گئے کوٹ کی جیبیں خالی ہیں، جس سے ایوان میں قہقہے لگے ۔ عبداللہ نے کہا کہ ہمیں ایسے غیر ضروری بحثوں میں نہیں الجھنا چاہیے، جہاں بھی ترقی کی ضرورت ہے، وہ ہونی چاہیے اور جہاں مزید بہتری کی ضرورت ہے وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کی جائے گی۔اپنی تقریر دوبارہ شروع کرنے سے پہلے شرما نے پارٹی ایم ایل اے شگن پریہار کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ان کے والد اجیت پریہار اور چچا انیل پریہار بھی نومبر 2018 میں کشتواڑ ضلع میں دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ ملی ٹینٹوں کی گولیاں لوگوں میں فرق نہیں کرتیں۔
سیاحوں کی آمد
وزیر اعلی نے خطے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے شعبے کی صلاحیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں 1.20 لاکھ غیر ملکیوں سمیت 4.40 کروڑ سے زیادہ سیاحوں نے جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔عبداللہ، جو محکمہ سیاحت کے بھی انچارج ہیں، نے کہا کہ گزشتہ دو مالی سالوں میں محکمہ کی تشہیر، اشتہارات اور متعلقہ سرگرمیوں کے لیے 35.08 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے ایوان کو بتایا کہ مالی سال 2023-24 میں 12.54 کروڑ روپے اور 2024-25 میں 22.54 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں 4.48 کروڑ زائرین بشمول 1.20 لاکھ غیر ملکیوں نے جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ 2023 میں 2,11,24,674 سیاحوں نے جموں اور 2024 میں 2,35,24,629 سیاحوں کا دورہ کیا۔ ان میں سے 2023 میں 55,337 اور 2024 میں 65,452 غیر ملکی سیاحوں نے دورہ کیا۔عبداللہ نے کہا کہ سیاحت کا شعبہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے روزگار کے وسیع امکانات رکھتا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جب کہ یہ شعبہ جموں و کشمیر میں ایک قابل ذکر افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے، صحیح تعداد کا پتہ لگانے کے لیے کوئی باقاعدہ سروے نہیں کیا گیا ہے۔وزیراعلیٰ نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ گزشتہ دو سالوں میں محکمہ سیاحت کے 59 اثاثے آٹ سورس کیے گئے ہیں۔