سید سہیل گیلانی
زندگی میں جب ہم کسی خاص مقصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں یا نئی راہوں کا انتخاب کرتے ہیں، تو تنقید کا سامنا ایک ناگزیر عمل بن جاتا ہے۔ یہ تنقید مختلف شکلوں میں نمودار ہوتی ہے۔کبھی ہمارے پیشہ ورانہ کام پر، کبھی ہماری شخصیت پر، کبھی ہمارے انتخاب پر اور کبھی تو ہماری ذاتی زندگی تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ تنقید ہمیں نہ صرف دوسروں کی نظر میں اپنے آپ کو بہتر سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے بلکہ اس کا مؤثر مقابلہ کرنا ہماری پختگی، ذہنی استحکام اور جذباتی بلوغت کا آئینہ دار ثابت ہوتا ہے۔ تاہم یہ تنقید ہمیشہ تعمیری نہیں ہوتی، بلکہ مختلف حوالوں سے آتی ہے، چاہے وہ ہمارے قریبی دوستوں یا رشتہ داروں سے ہو، یا غیر مانوس افراد اور سماج سے۔سب سے پہلےیہ سمجھنا ضروری ہے کہ تنقید صرف ہمارے طرزِ زندگی یا کام سے متعلق ہوتی ہے، نہ کہ ہماری ذات پر۔ اکثر لوگ اپنی ذاتی رائے یا تجربات کی بنیاد پر ہمیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ہم اسے ذاتی طور پر لے لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے رشتہ دار یا دوست ہمارے فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہیں، جیسے کہ ہم نے جو تعلیمی شعبہ منتخب کیا ہے یا جو کاروبار ہم اختیار کر رہے ہیں، وہ ان کے خیال میں کامیاب نہیں ہوگا۔ اس نوعیت کی تنقید ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ ہم نے شاید غلط انتخاب کیا ہے، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ محض ان کی رائے ہوتی ہے، جو ان کے محدود تجربات اور فکری تناظر پر مبنی ہوتی ہے۔ ہر فرد کا تجربہ مختلف ہوتا ہے اور وہ اپنی کامیاب یا ناکام داستانوں کے پس منظر میں اپنی رائے پیش کرتا ہے۔
اسی طرح رشتہ داروں کی طرف سے آنے والی تنقید بھی ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہے۔ اکثر اوقات وہ ہمارے فیصلوں پر سوالات اٹھاتے ہیں اور ہمیں شک میں مبتلا کر دیتے ہیں، خاص طور پر جب ہم ان کی توقعات کے برعکس اپنے راستے پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پراگر ہم کوئی ایسا پیشہ اختیار کرتے ہیں جو روایتی طور پر ان کے معیار کے مطابق ’’مناسب‘‘ نہیں سمجھا جاتا تو وہ ہماری سوچ اور فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ ہم ان کی رائے کو برداشت کریں، لیکن اپنے فیصلے پر پختہ یقین رکھتے ہوئے ان کی باتوں کو نظر انداز کریں۔
سماج کی جانب سے ہونے والی تنقید بھی اہم ہوتی ہے، کیونکہ یہ اکثر فرد کو اپنے اصولوں سے ہٹ کر دوسروں کی توقعات پر چلنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ یہ دباؤ خاص طور پر خواتین، نوجوانوں یا سماجی طور پر کمزور گروپوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ سماج کی توقعات، اخلاقی معیار اور روایات اتنی شدت اختیار کر لیتی ہیں کہ وہ فرد کو اپنے راستے پر چلنے سے روک دیتی ہیں۔ اس تنقید کا مقابلہ کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ ہم اپنی شناخت اور خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے سماج کی نظروں میں اپنی حیثیت بہتر بنا سکیں۔
تنقید کا مؤثر جواب دینے کا طریقہ ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے۔ جب ہم کسی تنقید کا سامنا کرتے ہیں، تو جذباتی ردعمل دینے کی بجائے ہمیں خود کو پرسکون رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر تنقید تعمیری ہوتو اسے ایک سیکھنے کے موقع کے طور پر لینا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو کمتر سمجھیں بلکہ ہم یہ سمجھیں کہ ہمیں کہاں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ تعمیری تنقید وہ ہے جو ہماری کمزوریوں کو اجاگر کرے اور ہمیں اپنی قابلیت کو بہتر بنانے کی رہنمائی دے، جب کہ تخریبی تنقید وہ ہے جو ہمیں غیر معتبر محسوس کرائے اور ہماری صلاحیتوں کو سوالیہ نشان بنائے۔ تخریبی تنقید کو نظرانداز کرتے ہوئے ہمیں تعمیری تنقید سے سیکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ تنقید کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے آپ پر اعتماد اور خود اعتمادی کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔ جب ہم اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو جانتے ہیں، تو ہم کسی بھی نوع کی تنقید سے متاثر نہیں ہوتے۔ رشتہ داروں یا سماج کے دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو تسلیم کرنا، اپنی اقدار اور اصولوں کو سمجھنا اور ان پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر کسی کی رائے ہمیں متاثر نہیں کرنی چاہیے۔ اگرچہ رشتہ داروں یا دوستوں کی تنقید سننا ضروری ہے، لیکن اس پر عمل کرنے کا فیصلہ ہمیشہ ہمیں خود کرنا ہوتا ہے۔ ہماری زندگی، ہمارے فیصلے اور ہمارے مقاصد ہیں، ان پر صرف ہم ہی فیصلہ کرنے کے اہل ہیں۔ اگر ہم ہمیشہ دوسروں کی توقعات کے مطابق اپنی زندگی گزاریں گے تو نہ صرف ہم خود کو غیر مطمئن محسوس کریں گے بلکہ ہماری کامیابی کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ تنقید کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اہم حکمت عملی یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور ان سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ جب ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرتے ہیں اور تنقید کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تنقید کا مؤثر مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ پر پختہ یقین رکھیں، اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کریں اور اپنے فیصلوں کی ذمہ داری خود اٹھائیں۔ ہمیں اپنی زندگی کو دوسروں کی توقعات کے مطابق نہیں بلکہ اپنے خوابوں اور اہداف کے مطابق گزارنا چاہیے۔ جب ہم خود پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی راہ پر گامزن رہتے ہیں، تو ہم نہ صرف تنقید کا مؤثر مقابلہ کرتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
(مضمون نگار ایم ایس سی کے طالب علم ہیں)
[email protected]