Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

سجن رے جھوٹ مت بولوخدا کے پاس جانا ہے | تعمیری معاشرے میں جھوٹ بولنا تخریبی عمل ہے فہم و فراست

Towseef
Last updated: March 3, 2025 9:31 pm
Towseef
Share
13 Min Read
SHARE

ڈاکٹر فلک فیروز

ہندوستانی سینما میں بنائی گی مشہور فلم’’ تیسری قسم‘‘ میں شلیندر نے جو گیت ’’سجن رےجھوٹ مت بولو ‘‘ کے مصرعہ اولا ًکے تحت لکھا، جس کو نغموں کے بادشاہ مکیش کمار ماتھر نے اپنی خوبصورت آواز میں گایا اور اپنے دور میں ہر فرد ،ہر گھر میں گنگنایا جاتا رہا ، کا بنیادی پیغام لوگوں تک یہ پہنچانا تھا کہ فلم دیکھ کر لوگوں میں ایک نئی توانائی جنم لے گی اور وہ جھوٹ بولنے کا راستہ ترک کرکے سماج کی تعمیر میں ایک مثبت کردار کے طور پر اُبھرآئیںگے۔ توانائی چاہے لوگوں میں آئی تھی یا نہیں، لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیان ہے کہ سب کو خدا کے پاس جانا ہے اور جانے کے لئے نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا بلکہ دوسروں کے کاندھوں کا محتاج ہوکر جانا ہے اور خدا کے حضور بولے گئے کذب و افترا کا حساب دینا ہوگااور پھر بقول شاعر ؎

تمہارے محل چوپارے یہی رہ جائیں گے سارے
اکڑ کس بات کی پیارے ،یہ سر پھر بھی جھکانا ہے

صداقت یا سچائی نیز حقیقت کی ضد جھوٹ اور بہتان ہے ۔ جھوٹ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ دنیا میں رہے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کا وجود فانی ہے اور اس سے اپنی مقرر کردہ زندگی کا حصہ گزارکر اپنے خالق کے حضور پیش بھی ہونا ہے، جس کاہر فرد کو علم بھی عطا کیا گیا ہے بلکہ زندگی بسر کرنے کا نصاب بھی اس سے دیا گیا ہے۔ جس کے مطابق اسکے امتحانات اور آزمائشوں کا تعین بھی کیا گیا ہے مگر انسان کی بد نصیبی یہ ٹھہری ہے کہ ان سب کا علم ہونے کے باوجود بھی یہ خود فریبی کا شکار ہے ،خود کے ساتھ بھی جھوٹ کا برتائو روا رکھتا ہے،بار بار جھوٹی تسلی سے اپنے من کو ہلکا کرتا ہوا ایک دائمی ہچکولے کا شکار ہوجاتا ہے۔مشہور زمانہ مفکر فیوڈر دستووسکی کا ماننا ہے کہ جو لوگ خود فریبی کے عادی ہوتے ہیں وہ دراصل حقیقت جاننے کی تاب نہیں رکھتے ہیں۔ ان کے بقول :
“Don’t lie to yourself. The man who lies to himself and listens to his own lie comes to a point that he cannot distinguish the truth within him, or around him, and so loses all respect for himself and for others.”

علم اخلاقیات ،علم نفسیات اور علم اعصاب کے ماہرین نے جو تجربے اس اعتبار سے حاصل کئے ہیں اور ان کے شائع شدہ نتایج پیش کئےہیں اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ جھوٹ ایک ایسی برائی،بیماری ہے جس کے منفی اثرات نہ صرف کذاب کی شخصیت پر پڑتے ہیں بلکہ سماج کا تانا بانا بھی بکھر جاتا ہے،نیز اللہ کا عذاب اپنی جگہ ۔ایک انسان کتنی بار خود سے جھوٹ بولتا ہے ،اپنی سرزنش کرنے کے بجائے جھوٹ اور جھوٹی تسلی سے حقائق کا منہ موڑتا ہے جس کا اثر دیر پا نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ مداوا وقتی ثابت ہوتا ہے۔خود فریبی ،خود سے جھوٹ بولنا ایک انسان کی دنیاوی،عقبی،نفسیاتی اور روحانی زندگی کے لیے سم قاتل ہے جس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ قران کریم میں جھوٹے انسان کے لئے لعنت کا تعین کرتے ہیں۔ نبی اکرمؐنے جھوٹ سے پرہیز برتنے کی صلاح دی ہے اور جھوٹے انسان کو دھوکہ باز ،مکار،باغی بتاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جو جھوٹ بولے گا ،وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ عام لغات میں جھوٹ کی تعریف یوں ملتی ہے۔ جھوٹ یا کذب (عربی) یا دروغ(فارسی) کسی شخص یا گروہ کا کسی دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق قصداً کسی بات کو حقیقت کے خلاف بیان کرنا ہے۔ جھوٹ مختلف وجوہات کی بنا پرکوئی فائدہ پانے یا نقصان سے بچنے کے لئے بولا جاتا ہے۔ معاشرے میں اس کو عام طور پر ایک بُرا فعل گردانا جاتا ہے اوراس سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

علم نفسیات کے مطابق جھوٹ بولنا،جھوٹ کا سہارا لیکر کوئی کام کرنا وہ عمل ہے جو دانست طور پر ،جان بوجھ کر غلط بیانات کے ذریعے اس لئے بولا جائے،ظاہر کر دیا جائے تاکہ کسی کو دھونکا دیا جاسکے،کسی سے کوئی وہ مقصد حاصل کیا جاسکے جس کے بارے میں وہ جانتا بھی نہیں ہو، یا یہ کہ کہنے والا اپنے بیانات میں حقائق کے ساتھ چھیڑ خانی روا رکھے تاکہ اصل بات کی سو فی صد نکل بتائی جائے، جس سے ایک کو فایدہ ملے اور دوسرے کو نقصان یا خسارہ اٹھانا پڑے، چاہے جانی ،مالی،ایمانی ،عزت نفس کے تئیں یا معنوی سطح پر۔ جھوٹ بولنے کے پس پردہ جو وجوہات ہوتے ہیں، انھیں سائنسی علوم ،نفسیاتی علوم اور مذہبی سطح پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے، یہاں صرف ان وجوہات کا ذکر کیا جاے گا جنھیں علم نفسیات میں پڑھایا پڑھا یاجاتا ہے جن کی فہرست کچھ اس طرح کی ہے ۔
(Insecurity ,Social status ,Humor,Substance Abuse )
اسی طرح جھوٹ بولنے کی نفسیات کے کلیدی عناصر میں درج ذیل شامل ہیں :
(Self preservation,Impression Management,Protecting Others,Emotional Regulation ,Manipulation(

جھوٹ بولنا یقینی طور پر ایک پراگندہ ذہن کی ایجاد ہوسکتی ہے ،اس ذہن کی جس میں صداقت ،حق،سچائی نہیں پل سکتی ہے کیونکہ اس ذہن کے اندر جو خیالات پنپ سکتے ہیں ان کا منبع کسی بھی سطح پر خدائی تعلیمات کا ظہور نہیں ہوسکتا ہے بلکہ ان خیالات کی ڈور ابلیس کے پاس ہی ہوسکتی ہے، کیونکہ شیطان نے انہیں حضرت آدم ؑاور حواؑ کے دل میں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کہ تمہیں تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے اس درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤاوراس کے ساتھ شیطان نے قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ اس پر انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے ، اس خیال سے حضرت حوا ؑنے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدم علیہ السلام کو دیا توانہوں نے بھی کھالیااور اس طرح ابلیس کھلم کھلا آدم اور حوا کا دشمن بن گیا، اللہ نےآدم اور حوا کو جنت سے نکال دیا ۔

شاہنواز فاروقی اپنے کالم ’’ ہم اور جھوٹ کی نفسیات‘‘ میں لکھتے ہیں: سوال یہ ہے کہ جھوٹ اور سچ کی نفسیاتی جہت میں بنیادی فرق کیا ہے؟ میرے خیال میں جھوٹ ایک پیچیدہ اور پراگندہ ذہنی صورت حال کا عکاس ہوتا ہے اس کے برعکس سچ واضح اور صاف ذہنی کیفیات کا مظہر ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کو ایک جھوٹ بول کر ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی ذہن تہہ در تہہ ذہنی اُلجھنوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک جھوٹ کو جواز فراہم کرنے کے لیے اسے دوسرا جھوٹ گھڑنا ہوتا ہے دوسرے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے تیسرا جھوٹ ایجاد کرنا پڑتا ہے اور یوں یہ صورت حال ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس سفر میں ہر قدم پر انجام ہی انجام ہے آغاز کہیں نہیں ہے۔

اردو زبان میں جھوٹ کے متعلق مختلف محاورات موجود ہیں، ان کا استعمال عوامی گفتگو میں روزمرہ ہوتاہے اور علمی وادبی زبان میں بھی ان محاوروں سے کام لیا جاتا ہے۔ جس سے زبان کا چٹخارہ پن نکھر جاتا ہے اور عبارت کا حسن بھی دوبالا ہوجاتا ہے۔ ان محاوروں میں’’ سفید جھوٹ‘‘ کا استعمال تب کیا جاتا ہے جب مخاطب الیہ کو علم ہوتا ہے کہ بات ،معاملہ ، تجربہ یا خدشہ سو فیصد جھوٹ بر مبنی ہے جس میں سچائی کی کوئی ملاوٹ موجود نہیں ہوتی ہے ۔ محاورہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے تب استعمال کیا جاتا ہے جب جھوٹ جنگل کے آگ کی طرح پھیل جائےاور اس سے زیادہ تیز رفتار میں فنا بھی ہوجائے۔ محاورہ جھوٹ اُڑانا سے مراد ہے غلط سلط باتیں کرنا،غلط سلط باتیں بنانا جو کہ غیبت یا بہتان کے دایرہ میں آتا ہے ،جھوٹ کے پہاڑ اٹھانا ،اڑانا محاورہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی بیان بازی میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتا ہے ۔جھوٹ کے پل باندھنا ،جھوٹ باندھنا ،جھوٹ بنانا،جھوٹ سچ لگانا محاورات بھی اکثر و بیشتر استعمال کیے جاتے ہیں۔محاورہ جھوٹ کا منہ کالا ،سچے کا بول بالا سے مراد ہے کہ جھوٹے کی ہمیشہ ہار اور سچے کی جیت ہوتی ہے۔ عین مطابق مختلف زبانوں میں جھوٹ کے حوالے سے ضرب الامثال موجود ہیں جنھیں عوام و خواص گفتگو میں لاتے ہیں ۔ جھوٹ اور کذب بیانی کے متعلق متعدد اقوال کتابوں میں درج ہیں جن سے جھوٹ کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ کسی صاحب علم کا قول ہے، جھوٹ کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے لیکن منزل پر سچ ہی پہنچتا ہے ۔ جھوٹے انسان کی شخصیت کے اوصاف کیا کیا ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ان کے بارے میں تحقیقی شواہد سے جو خصایل ،اوصاف سامنے آئے ہیں ان میں نرگسیت،خود پسندی،خود ستائی،اَنا پرستی،استحصالی قوت،مکاری،چالاکی،خود ساختہ دلایل میں مہارت رکھنے کا فن،جارہانہ انداز بیان کے مالک،حسد رکھنا وغیرہ جیسی خصلتیں اور اوصاف ہیں ۔ایسے لوگوں سے بحث کے دوران موضوع بدلنے کی کوشش کریں یا پھر وہاں سے دور ہو جائیں۔ کیونکہ آپ کبھی انہیں اپنے خیالات، افکار یا نظریات پر رضامند نہیں کر سکتے نہ ہی وہ کبھی آپ کی اختلاف رائے کا احترام کریں گے۔ انہوں نے سمجھیں قسم کھائی ہوئی ہے کہ آپ کی بات کو صحیح ماننا ہی نہیں ہے، خواہ کتنی ہی ٹھوس اور مدلل بات کیوں نہ ہو۔

سماج میں اب جھوٹ غیر محسوس انداز میں ہماری روز مرہ زندگی میں کافی حد تک پھیل چکا ہے ،تکلم کی سطح پر ترسیل کے دوران کذب بیانی سے کام لینا آسان عمل ہے بلخصوص فون پر بات کرنے کے دوران ۔ ہمارے سماج کا وہ کونسا در ،نکڑ،مقام ،گھر،دفتر ہے جہاں جھوٹ نہ بولا جاتا ہو بلکہ انتہائی ذوق و شوق سے جھوٹ بیانی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ۔شادی و دعوتوں کی محفلوں میں ،عیادت کے دوران مریضوں کے گھروں میں ،شفاخانوں میں ،تعزیت کے مجلسوں میں ،مسجدوں میں نیز عبادت خانوں میں ۔یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ جھوٹ بولنا اب ہنر بن چکا ہے، ہنر کے بطور ان کذاب کی صحبتیں اختیار کی جاتی ہیں اور سفید جھوٹ بیان کرنے کے باوجود بھی سننے والے یقین کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں اور ان کی زبان پر یہی کلمات ہوتے ہیں کتنا ٹیلنٹِڈ بندہ ہے، جھوٹ بولتا ہے لیکن کہیں سے اسکی باتیں جھوٹ نہیں لگتی اور اس کیفیت کو شاعر یوں بیان کرتا ہے۔
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا ( وسیم بریلوی)
بہرکیف کوئی کتنا بھی حسین انداز میں جھوٹ بولے لیکن حق تو یہی ہے کہ جھوٹ گناہ کبیرہ میں تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے بہتر اور حسین راستہ جھوٹ یا کذب بیانی کے ترک کرنے کے عمل میں ہی پوشیدہ ہے۔
رابطہ۔8825001337

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
صحت سہولیات کی جانچ کیلئے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کاپونچھ دورہ تعمیراتی منصوبوں اور فلیگ شپ پروگراموں کی پیش رفت کا جائزہ لیا
پیر پنچال
پولیس نے لاپتہ شخص کو بازیاب کر کے اہل خانہ سے ملایا
پیر پنچال
آرمی کمانڈر کا پیر پنجال رینج کا دورہ، سیکورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا آپریشنل برتری کیلئے جارحانہ حکمت عملی وہمہ وقت تیاری کو ضروری قرار دیا
پیر پنچال
سندر بنی میں سڑک حادثہ، دکاندار جاں بحق،تحقیقات شروع
پیر پنچال

Related

کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025
کالممضامین

! ’’ناول۔1984‘‘ ایک خوفناک مستقبل کی تصویر اجمالی جائزہ

July 11, 2025
کالممضامین

نوبل انعام۔ ٹرمپ کی خواہش پوری ہوگی؟ دنیائے عالم

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?