شبیر احمد مصباحی
ارادہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی نیت کو کہتے ہیں۔ نیت نیک بھی ہو سکتی ہے اور بد بھی مگر ارادہ بہرحال ارادہ ہی رہتا ہے۔ کسی کے ارادے کو ارادہ ماننے یا نہ ماننے کی طاقت کسی کے پاس نہیں، ہاں! ہر کسی کو اپنی رائے دینے کی آزادی ضرور حاصل ہے۔ دنیا میں لاکھوں لوگ نیک ارادے رکھتے ہیں، مگر نیک ارادے رکھنے سے وہ نیک بن جائیں، یہ ضروری نہیں۔ ارادوں کی خوبی یہ ہے کہ ان پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگتا، نہ ہی ان پر کوئی قانونی قدغن ہوتی ہے۔ بس ارادے کرتے جائیے، خواہ ان پر عمل ہو یا نہ ہو۔
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بڑے بڑے ارادے کرتے ہیں مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو یا تو وہ ’’مزید غور و فکر‘‘ میں پڑ جاتے ہیں یا پھر حالات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ حکومتیں کتنے ہی اچھے ارادے کرتی ہیں مگر ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانا اُن کے لیے فرض و واجب نہیں ہوتا۔ سیاستدانوں کے ارادے سنیں تو لگتا ہے کہ ملک کو اگلے سال ہی جنت بنا دیں گے مگر ان کے ارادوں کی عمر عموماً الیکشن جیتنے تک محدود ہوتی ہے۔
چلیں! ایک نظر اپنے ارد گرد ڈالیں۔ حاجی موسیٰ کی دکان پر جائیں۔ وہ پچھلے کئی سال سے ارادہ کئے بیٹھے ہیں کہ دکان میں نیا سامان لائیں گے مگر یہ “ارادہ” کب حقیقت میں بدلے گا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ کسی کی نجی کار میں بیٹھ کر شہر جانے کا ارادہ کریں تو معلوم ہوگا کہ منزل تو پکی ہے مگر روانگی کے وقت کا فیصلہ قدرت کے سپرد ہے۔
سبکدوش ماسٹر حشمت اللہ صاحب اور ان جیسے کئی بزرگ ارادہ رکھتے ہیں کہ فریضہ حج ادا کریں گے مگر یہ ارادہ فی الحال نیت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ کئی فرمانبردار بچے ارادہ رکھتے ہیں کہ والدین کو حج کروائیں گے مگر پھر شادیوں، بچوں کی تعلیم اور دیگر معاشی ذمہ داریوں کے پہاڑ ایسے آڑے آتے ہیں کہ ارادہ کسی کونے میں دب کر رہ جاتا ہے۔
اب جناب رمضان صاحب کا ذکر بھی ہو جائے، جو ہر سال رمضان المبارک میں پورے روزے رکھنے کا “پکا ارادہ” کرتے ہیں مگر چاند رات آتی ہے تو اُن کو اپنا وہ اردہ مکمل نہ کرنے پر پشیمان ہونا پڑتا ہے مگر عید کے ساتھ ساتھ ان کے ارادے پرانے کپڑوں کی طرح الماری میں رکھ دیئے جاتے ہیں، کہ اگلے سال نکال کر پھر سے نیت کر لی جائے گی۔
مذکورہ گفتگو سے آپ کو لگتا ہوگا کہ ارادہ کرنا کوئی آسان شئے ہے ،نہ بالکل نہیں ۔
ارادہ کرنا آسان نہیں بلکہ بعض اوقات تو ناممکن لگتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سالہا سال ایک ارادہ بھی نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر دادا عبدالاحد سے میں پچھلے دس سال سے پوچھ رہا ہوں کہ حج پر کب جا رہے ہیں اور ان کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے: “ابھی ارادہ نہیں بنایا!” حالانکہ وہ اب تو لیبر کے کام کاج سے بھی ریٹائر ہو چکے ہیں مگر ارادہ ہے کہ بنتا ہی نہیں۔
حوالدار جمعہ خان سے کئی بار کہا کہ چچا، اب تو داڑھی رکھ لیں مگر وہ ہر بار ایک ہی جواب دیتے ہیں: “ابھی تو میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے!” اوقاف کمیٹی کے صدر عالم صاحب سے میں کئی بار عرض گزار ہوا کہ اب ذمہ داری نوجوانوں کو دے دیں مگر وہ اپنی داڑھی سہلاتے ہوئے ہمیشہ فرماتے ہیں: “فی الحال کوئی ارادہ نہیں۔” بلکہ مزید فرماتے ہیں کہ ابھی اوقاف کو کچھ اور “بلندیوں” تک لے جانا ہے۔ بس وہ آخری ترقی دیکھ لوں پھر سبکدوش ہو جاؤں گا۔
ارادے کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف سوچنے سے بھی بن سکتا ہے،جیسے ہمارے علاقے کے معروف قلمکار حاجی احمد صاحب، جنہیں میں نے ایک دن مشورہ دیا کہ آپ اپنی مادری زبان کے فروغ کے لیے کچھ لکھیں۔ وہ مسکرا کر بولے: “ابھی میرا کوئی ارادہ نہیں کہ ایسی زبان پر لکھوں جسے چار لوگ بھی صحیح سے نہ پڑھ سکیں۔ ہاں جب لکھوں گا تو ایسا لکھوں گا کہ لوگ عش عش کر اٹھیں!”
ارادے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ جتنے مرضی بڑے ارادے کر لیں، کوئی آپ سے پوچھنے والا نہیں کہ آپ اتنے بڑے خواب کیوں دیکھ رہے ہیں۔ آپ ایک تنظیم بنا لیں اور اعلان کر دیں کہ پوری دنیا کو بدل ڈالیں گے، کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ آپ نے ارادہ کیا کہ اردو یا کسی اور زبان کی ترقی کے لیے کام کریں گے، یہ بھی ایک ارادہ ہے، اور ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی ہو۔
اور ہاں، اگر کسی دن کوئی پرانا ارادہ یاد آ جائے تو کوئی بات نہیں! بس اسے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ پھر سے دہرا لیں۔ ان شاء اللہ کچھ نہیں ہوگا! بلکہ اگر قسمت نے ساتھ دیا، تو شاید کچھ بہتر ہو ہی جائے۔
���
دراس کرگل لداخ ،موبائل نمبر؛8082713692