ندیم خان۔ بارہمولہ
بھارت سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان بستے ہیں، ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان المبارک کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں۔ رحمتوں والے اس ماہ مبارک میں مسجدوں کی رونقیں بحال ہونے کو ہیں۔ اب دن رات لوگ گھروں اور مسجدوں میں عبادات کریں گے۔ عشاء کی نماز کے بعد تراویح بھی ادا کریں گے۔ ایک عہد کریں گے کہ اس رمضان غصہ آئے تو پی جائیں گے اور کسی کے ساتھ دھوکہ نہیں کریں گے۔ ہر طرح کی بُرائی سے بچیں گے اور نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ اللہ کی رضا کے لیے اچھائی کا ہر کام کریں گے چاہے کتنی بھی مشکلات کیوں نہ آجائیں۔ مسجدوں میں امیر غریب سب ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے، جنت کے سبھی دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک دروازہ ریان خصوصی طور پر روزہ داروں کے لیے کھولا جاتا ہے۔ روزہ دار کا اللہ کے نزدیک ایک اہم مقام ہوتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں اللہ نے فرمایا کہ تم پر روزے اس لیے فرض کیے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ روزہ اس بات کا اظہار ہے کہ انسان روزے کی نیت کر کے طلوع و فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور دوسری خواہشات پوری کرنے سے رکا رہے۔ قرآن کریم نے واضح طور پر کہا ہے ،اے ایمان والو! تم پر ماہ صیام کا روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہوجائے۔ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، مسلمان اس مہینے میں نیکیاں سمیٹنے کیلئے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ماہ مبارک گناہوں کی مغفرت کے ساتھ اپنے اندر نیکیوں کا بےحد حساب اجروثواب رکھتا ہے۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے،’’بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اور یہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس میں (نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کروا سکا۔‘‘بطور مسلمان رمضان نصیب ہونے پر ہمیں رب کا شکر بجالانا ہوگا اور اس ماہ مبارک کو غنیمت جانتے ہوئے گناہوں کی مغفرت کیلئے نماز، روزہ، صدقہ وخیرات، ذکر الٰہی، قیام وسجود اور عمل صالح کرکے اللہ کو راضی کرنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے اس بات کی توفیق طلب کرنی ہوگی کہ وہ ہمیں اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کردے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔ پس، تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پالے، تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘ ( سورۃ البقرہ، آیت 184) ۔یہ رمضان المبارک کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے مہینے کو حاصل نہیں۔ اِس سے بڑا امتیاز اور کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے باقی مہینوں کو چھوڑ کر اپنی آخری کتاب ِہدایت کو دنیا میں بھیجنے کے لیے اِس با برکت مہینے کا انتخاب فرمایا اور اس مہینے کو نزولِ قرآن کی میزبانی کا شرف و اعزاز بخشا۔ قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہؐ میں رمضان المبارک کی بہت سی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، جن کی بنا پر اس ماہ کو ایسی عظمت اور بلندیٔ شان عطا ہوئی کہ یہ مہینہ آتے ہی پوری کائنات رحمتوں اور برکتوں کی بارش میں نہائی محسوس ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ’’رمضان شریف کا مہینہ آتا ہے، تو (اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور) جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور تمام شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں، قید کر دیے جاتے ہیں۔‘‘(بخاری شریف، کتاب الایمان)۔حضرت ابو مسعود غفاریؓ بیان کرتے ہیں،’’ رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا کہ ایک دن مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ’’ اگر لوگوں کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا پتا ہوتا، تو وہ خواہش کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔‘‘ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،’’ میری اُمّت کو ماہِ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں، جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔ پہلا یہ کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اُن کی( روزہ داروں) طرف نظرِ التفات فرماتا ہے اور جس پر اُس کی نظرِ رحمت پڑجائے، اُسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ شام کے وقت اُن کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبُو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ فرشتے ہر دن اور ہر رات اُن کے لیے بخشش کی دُعا کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ اللہ تعالیٰ جنّت کو حکم دیتا ہے کہ میرے بندوں کے لیے تیاری کرلے اور مزین ہوجا، تاکہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔ پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے، ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے روزہ ایک نہایت اہم ستون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کے ہر عاقل و بالغ فرد پر 2ہجری میں فرض کیا ہے اور اس کا فرضیت پر اُمت کا اجتماع ہے جو اس کا منکر ہوگا وہ مرتد شمار ہوگا۔ اس روزہ کا وجود پانچ ہزار سال پہلے ملتا ہے، البتہ اس وقت کے روزوں کی کیفیت الگ ہوتی تھی یہ روزہ جو اُمت محمدیہ پر فرض کیا گیا اور اس کے استقبال کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ یہی ایک ایسی عبادت ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر و ثواب میں اپنے طور سے دوں گا۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دیگر اوقات و ایام پر روزے کو شرف و فضیلت بخش کر اس کے ہر لمحات کو اپنے مومن بندوں کے لئے نہایت قیمتی سرمایہ قرار دیا ہے نیز جو جسم انسانی کے ڈھانچے سے لے کر پورے مسلم معاشرے میں اس کے ظاہری اخلاق و عادات نیز سلوک و عبادات میں جلا و نکھار پیدا کرتا ہے اور باطن میں روحانیت اور تقویٰ پیدا کرتا ہے، روزے کا استقبال اس لئے بھی کیا جاتا ہے کہ وہ عام انسانوں میں خوش دلی، رضائے الٰہی نرم جوئی اور احسان پیدا کرتا ہے۔ روزے کی یہی یکسانیت مشرق سے لے کر مغرب تک دیکھی جاتی ہے۔ مگر کیا دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرح سے ہم حلوہ سازی و آتش بازی سے استقبال رمضان کریں اور ہزاروں لاکھوں روپیہ اس رسم بے جا پر پانی کی طرح صرف کر دیں، جس سے غلط رسم و رواج، بدعات و خرافات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جن کا عہد رسولؐ و صحابہؓ میں نام و نشان تک نہ تھا۔ حضرت سلمان فارسی ؒنے ایک مفصل روایت بیان کی ہے کہ شعبان کے آخری دن رسول اللہؐ نے وعظ فرمایا کہ اے لوگو تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے ،وہ بڑا بابرکت مہینہ ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے، اس کے روزے کو اللہ تعالیٰ نے فرض اور اس کی رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے، جو کوئی رمضان میں کسی نیک کام سے اللہ کا قرب حاصل کرے گا تو ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں فرض ادا کیا اور جس نے اس ماہ میں فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کئے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اس کا ثواب جنت ہے اور یہ ہمدردی کا مہینہ ہے اس میں مومن کی روزی بڑھا دی جاتی ہے۔ اس مبارک مہینے کے آتے ہی بہت سے گنہگار اور نافرمان بھی اسلامی احکام و شعار کی پابندی کرنے لگتے ہیں، لہٰذا بجا طور سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رمضان المبارک کا آنے والا مہینہ نیکیوں کے موسم بہار کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ گلستان عمل میں فصل بہار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا استقبال اس لئے بھی ضروری ہے کہ کہ اس کے جلال و جمال اور اضافی امال کا مشاہدہ ہر روزہ دار کر سکتا ہے، اس کا دن بھی مبارک اور راتیں بھی مقدس، اس کے انوار برکات کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ روزہ دار کے مشام جاں کو معطر کئے رہتی ہے۔ لہٰذا خوش نصیب وہ ہیں جو اس فصلِ بہار سے فائدہ اُٹھائیں اور اجر و ثواب سے اپنے جیب و دامن بھر لیں ۔لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس ماہ میں بھی بہت سی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں، نتیجتاً ایک بڑی تعداد معمولی فائدہ پر اکتفا کر کے رہ جاتی ہے ۔ہم سب کو رسول اکرم ؐ کے اس فرمان اور عمل پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے جب آپؐ استقبال رمضان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے تاکہ رمضان کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں۔
رابطہ۔9596571542 [email protected]