Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! رمضان کا آغاز اور ہماری ذمہ داریاں تلخ و شریں

Towseef
Last updated: February 28, 2025 10:10 pm
Towseef
Share
8 Min Read
SHARE

معراج مسکینؔ

جونہی چاند کے نظر آنےکا اعلان ہوگاتو رمضان المبارک جلوہ گر ہوکررمضان کے روزوں کا آغاز ہوگا۔ ہر چند کہ رمضان کا یہ مہینہ جہاں روحانی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں ، مغفرتوں اور سعادتوں کا حامل ہے وہیںصبر و استحکام، ہمدردی و غم خواری اور ایثار و قربانی کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میںجس طرح بندوں کے اعمال اور نیکیوں کے اجر و ثواب کو ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے ،اُسی طرح اللہ اپنے روزے دار بندوں کے رزق میں بھی برکت اور دسترخوان پر وسعت عطا کرتا ہے۔ اس تمام معاشی اور روحانی پس منظر میں رمضان المبارک کی سماجی و معاشرتی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے۔روزے کی حالت میں بھوک پیاس پر صبر کرنے والے روزہ دار کو جہاں بھوک پیاس اور روٹی سے محروم انسانوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے وہیں اُس میںاخوت و غم گساری کا شوق اور جذبہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ظاہر ہے کہ جب کسی انسان کو جائز طریقے سے روٹی نہیں ملتی تو وہ ناجائز طریقوں پر اُتر آتا ہے اور مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق حیوانیت کا راستہ اختیار کر لیتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں انسانوں کی شکل میں شیطانوں کی جماعت نظر آتی ہے، جیسا کہ آج ہمارے معاشرے کی کیفیت ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی خبر گیری کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، جن کو رمضان میں بھی روزہ افطار کرنے کو ایک کھجور بھی نصیب نہیں ہوتی، تاکہ وہ انسانیت کا جامہ چاک کر کے حیوانیت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔ہم دیکھ رہے ہیںکہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا حصہ معاشی بدحالی کا شکار ہے،ساتھ ہی مہنگائی کا سیلاب بلا خیز ہے کہ دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہر چیز چاہے وہ کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا پہننے کے کپڑے ، روزمرہ استعمال کی دیگر چیزیں ہوں، بجلی ، گیس ، پیٹرول ہو یا ادویات، ہر چیز عام آدمی کی پہنچ اور قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہے اور قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ پرائیویٹ تنخواہ دار و دہاڑی دار مزدور طبقہ اس ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مشکلات کا شکار ہے۔ عام آدمی کی جو حالت ہے وہ ہم سب جانتے ہیں اور اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکل سفید پوش طبقے کی ہے۔ جو’’پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہے ۔ معاشرے کی یہ معاشی حالت صرف ’’جگ بیتی ہی نہیں بلکہ ’’آپ بیتی‘‘ جیسی ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ معاشرتی بدحالی سے دو چار ہےاور اس صورت ِ حال میں رمضان کے سماجی پہلو اور مواسات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس مہینے میں غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کی کفالت کا حتی المکان انتظام کریں تاکہ اُن کے چہروں کی اُداسی اور احساس محرومی کو دور کیا جا سکے۔خصوصی طور پر اپنے پاس پڑوس ، رشتے داروں اور دوست احباب کی خبر لیں، اُن میں جو مستحقِ زکوٰۃ ہو، اُسے باعزت طریقے سے زکوٰۃ دیںاور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ عام طور پر شریف لوگ اپنی سفید پوشی کی خاطر خود نہیں مانگتے ،حالانکہ وہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں، انہیں ہم اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ ہمارے دروازے پر مانگنے نہیں آتے ،ہمارا یہ رویہ کسی طرح دُرست نہیں بلکہ ہم خود اُن کے دروازے پر جاکر رازداری سے اللہ کی دی ہوئی دولت میں سے اُن کا حق اور حصہ دیں ،اس کے لئے ضروری نہیں کہ زکوٰۃ ہی کی رقم سے مدد کی جائے،کیونکہ ہر کسی پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی بلکہ ہم عمومی ذرائع آمدنی سے بھی یہ مواسات قائم کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ مومن کی صفت قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنی ضرورت روک کر اپنے بھائی کی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ بے شک مومنین کی صفت یہی ہے کہ وہ خودتنگی میں کیوں نہ ہوں، دوسروں کی ضروریات کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔ فلاحِ انسانیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد دوسروں کی نشوونما اور ان کی ضروریات کی تکمیل کو اپنی ضروریات پر ترجیح دے۔ اللہ کی ذات سے کیا بعید ہے کہ ہمارے ہاتھ سے افطار اور سحری کے وقت کسی ضرورت مند روزے دار کے منہ چند لقمہ خوراک کے چلے جائیں تو ہمارا یہ عمل آخرت میں ہماری مغفرت کا ذریعہ بن جائے۔ لیکن اس مواسات اور غم گساری میں ہمیں اس بات کا بھی بہت خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری امداد اور تعاون حقیقی مستحق افراد تک پہنچے، نہ کہ رمضان میں لشکروں کی شکل میں شہر شہر اور گاؤں پڑاؤ ڈالنے والے پیشہ ور گداگروں کی نذر ہو جائے۔یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہم رمضان کو واقعی ایک تربیتی مہینہ سمجھ رہے ہیں یا محض ایک تجارتی اور رسمی تہوار کے طور پر دیکھ رہے ہیں؟ بے شک رمضان کا اصل مقصد تقویٰ، صبر، ایثار اور قربِ الٰہی کا حصول ہے نہ کہ مصنوعی مہنگائی، تجارتی فوائد اور وقتی مذہبی جذبات کو ہوا دینا ہے۔ہم اکثر اپنے معاشرتی المیے کودیکھ رہے ہیں کہ رمضان المبارک کے جلوہ گر ہوتے ہی ہمارے یہاں کے بازاروں میںاشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت اور مہنگائی کا طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس مہینے میں تقویٰ، ایثاراور دوسروں کی مدد کا درس دیا جاتا ہے، اسی مہینے میں ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور استحصال عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ابھی رمضان شروع بھی نہیں ہوتا کہ اشیائے خورد و نوش کی مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے۔ دکاندار اور بڑے تاجر جان بوجھ کر چیزوں کو ذخیرہ کر کے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ چاول ، آٹا، کھانڈ،کھانے کے تیل ،پنیر ،دودھ ، پھل، سبزیاں اور دیگر ضروری اشیاء اچانک مہنگی ہو جاتی ہیں اور عوام کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ داموں پر خریداری کریں۔حالانکہ رمضان ہمیں ایمان داری ، سادگی، قناعت، دوسروں کی مدد اور خود احتسابی کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر ہم رمضان کے مہینے میں بھی ان خوبیوں کو نہ اپنائیں، ناجائز منافع خوری جاری رکھیں اور حقیقی اسلامی اصولوں پر عمل نہ کریں، تو یقیناً ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میںکوئی بھی مثبت تبدیلی نہیںآسکتی ہے۔ اس لئےیہ وقت ہے کہ ہم رمضان المبارک کی اصل روح کو سمجھیں اور اسے محض ایک رسمی مہینہ نہیں بلکہ اپنی زندگی کی اصلاح کا ذریعہ بنائیںاور اگر ہم حقیقی معنوں میں رمضان کی برکتوں سے فیضیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں محض ظاہری عبادات ہی نہیں بلکہ اپنی معاشرتی اور اخلاقی زندگی میں بھی تبدیلی لانی ہوگی۔

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
صحت سہولیات کی جانچ کیلئے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کاپونچھ دورہ تعمیراتی منصوبوں اور فلیگ شپ پروگراموں کی پیش رفت کا جائزہ لیا
پیر پنچال
پولیس نے لاپتہ شخص کو بازیاب کر کے اہل خانہ سے ملایا
پیر پنچال
آرمی کمانڈر کا پیر پنجال رینج کا دورہ، سیکورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا آپریشنل برتری کیلئے جارحانہ حکمت عملی وہمہ وقت تیاری کو ضروری قرار دیا
پیر پنچال
سندر بنی میں سڑک حادثہ، دکاندار جاں بحق،تحقیقات شروع
پیر پنچال

Related

کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025
کالممضامین

! ’’ناول۔1984‘‘ ایک خوفناک مستقبل کی تصویر اجمالی جائزہ

July 11, 2025
کالممضامین

نوبل انعام۔ ٹرمپ کی خواہش پوری ہوگی؟ دنیائے عالم

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?