بشارت بشیرؔ
ماہ ِرحمت وغفران بس اب جلوہ گر ہونے جارہا ہے۔ اطراف عالم میں اہل ایمان کے مسرتوں سے لبریز قلوب سینوں میں رقصاں ہیں ،عبادات میںاضافہ ہوگا ،نیکیوں کی فصل بہار ہوگی ۔سال کے گیارہ ماہ تو انسان اپنی مادی مصروفیات میں محو و مصروف نظر آتا ہے اکثر اس کے دل پر روحانی اعمال میں غفلت کے پردے پڑے رہتے ہیں ۔چوبیس گھنٹوں میں عبادات کا حصہ بہت کم ہوتا ہے ٗرمضان کی آمد اورپھر پورے دن فاقہ مستی کے عالم میں رہ کر رات کو پھر تراویح و تسابیح میں مشغول رہنا ہی اس لئے ہے کہ قلوب کا پورا تزکیہ ہو ۔نفوس پر بس احکام الٰہی کی تعمیل کا ذوق و شوق سوار ہو،جسمانی غذا کی مقدار کچھ کم ہو اور روحانی غذا میں کچھ اضافہ ہو۔جسمانی رفتار کو کچھ کم کرے اور روحانی رفتار میں سرعت لائے،یہاں تک کہ اس نقطہ ٔ اعتدال پر آجائے کہ قد افلح من تزکیٰ کا مصداق بنے۔یہ ایک طرفہ جنگ ہے ،جھوٹ ،کذب ،دروغ ،افترا انتشار ،لوٹ کھسوٹ ،وعدہ خلافی ،بدعنوانی ،کرپشن،ایذا رسانی ،انسان کشی ،ملاوٹ،تند خوئی ،جوروجبر ،جنسی ہوس اور سبھی اُن بُرائیوں کے خلاف جو انسانی عبادات کی عمارت کو ڈھا دیتی ہیں۔ اس ماہ میں عبادات کا مزہ ہی کچھ اور ہے ۔ کسی کا حق مارے بغیر نفلی عبادات میں بھی اضافہ ہو ۔’حق مارے بغیر‘ الفاظ اس لئے استعمال کئے کہ اگر آپ ملازم ہیں سرکار یا کسی دکان دار یا کارخانہ دار کے پاس ،تو ڈیوٹی کے دوران نفلی عبادات میں مشغول رہنا آپ کے لئے سود مند اس لئے ثابت نہیں ہوسکتا کہ آپ اجرت کے عوض کسی دوسرے کو دیا گیا اپنا وقت نفلی عبادات میں صرف کررہے ہیں ۔ہاں اگر آپ کو وہاں کرنے کو کچھ کام نہیں تو یقینا آپ وہاں تلاوت اور اللہ کا ذکر کرسکتے ہیں کوئی مضائقہ نہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ ہم نے ایک خاص حکم کے تحت جب خورد ونوش کا ہر حلال عمل بھی معطل کیا ہوا ہو…تو بھلا وہ کام کیسے کرتے رہیں جو عام حالات میں بھی حرام ہیں۔یعنی جھوٹ ،غیبت ،دل آزاری ،رشوت ستانی یا دوسرے اس جیسے سئیات غور فرمایئے کہ ہم نے حلال چیزوں کو ترک تو کردیاکھانے سے مدت خاص کے لئے ٗلیکن اگر ان حرام چیزوں میں یہ جان کر بدستور ملوث رہے کہ پوچھ گچھ نہیں ہوگی تو یہ محض بہلاوے کا کھلونا ہے ،اس لئے لازم ہے کہ ایک کامل مسلمان بننے کے لئے ہم سب ’’روزہ‘‘کے اس ’’ڈرائی کلینر ‘‘میں اپنے کو ڈھال لیں ،ہماری بصیرت ،بصارت ،سماعت اور قلب و نظر روزہ کے عمل سے گزرے تو رمضان کے آخری دن اور عید کی صبح کو ہمارے وجود سے ایک ایسا انسان نمودار ہوگا جس کے ہاتھ میں ھُمُ المفلِحُون اور حُمُ المتقوُن کی سند کامرانی ہوگی اور اگر یہ عادات رذیلہ ہم سے چھوٹ نہیں گئے اور خالی کھانے پینے پر ہی قدغن رہی تو اللہ بچائے ہم اُن لوگوں میں شامل نہ ہوں جنہیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا ہو ۔کون نہیں جانتا کہ ہم فی زمانہ عرب و عجم میں پِٹ رہے ہیں ، لُٹ رہے ہیں ،کٹ رہے ہیں ،وجہ جاننا بھی کوئی دشوار عمل نہیں ،یہی کہ نفوس پر الٰہی حکمرانی ختم ہوگئی ہے، خواہشات اور مادہ پرستی کا پھریرا اِن پر اڑتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ خواہشات کے اس بڑھتے سیلاب کو روکنے کیلئے اور نفوس پر اللہ کی کامِل حکمرانی اور غلبہ کے قیام کے لئے رمضان جلوہ فگن ہے ۔ گوش ہوش ِنیور سے سُن لو تو رمضان کہہ رہا ہے ۔آج بھی ہر عقدہ وا اور ہر مشکل حل ہوسکتی ہے بشرطیکہ آپ رنگ و نسل اورفرقوں کے خول سے باہر نکل کر صبغتہ اللہ میں اپنے کو رنگ لیںتو وارے نیارے ہوسکتے ہیں ۔تم یہ جو آج اوروں کے لئے نوالۂ تَر بن گئے ہو محض اس لئے کہ تم قوموں اور رنگ و نسل و مسلک و مشرب کے خانوں میں تقسیم بٹ چکے ہو،یہ منصوبہ کوئی نیا نہیں صیہونیت کا پرانا ایجنڈا ہے اور ہر دور میں کوئی ٹرمپ،کوئی گوربا چوف کوئی نیتن یاہو ، یا کوئی اسرائیلی حکمران اس کی تجدید کرتا رہتا ہے ۔ جن یہود ونصرانیوں سے پینگیں بڑھانے سے روکا گیا تھا۔تہذیب اُن کی ،سوچ اُن کی ،لباس اُن کا ،فکر پر اُن کا غلبہ ،تعلیم اُن کی ،عادات اُن کے ،انداز اُن کے یہاں تک کہ اکل و شرب میں بھی اُن ہی کی نقل اور مدعا یہ کہ رمضان میں بدرو احد کے فاقہ مستوں جیسی مدد ہو ،یہ کیسے ممکن ہے ۔قرآن نے تمہیں جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا کہ خبردار ، ان سے دور رہنا تمہارے ہو ہی نہیں سکتے تمہارے دین کو بگاڑیں گے ،تمہاری دنیا کی لٹیا بھی ڈبو دیں گے کتاب مبین نے کہہ دیا تھا نا !’’اور یہ یہود و نصاریٰ تم سے راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے ملت کی اتباع نہیںکرتے ‘‘۔[القرآن]۔اس واضح اعلان کے بعد بھی ہم اُن کی دریوزہ گری اور کاسہ لیسی کرکے رحمت رحمان کے طالب بنیں خود ہمارا اندرون ہم پر ہنس رہا ہے ۔
رمضان غم خوار ی کا مہینہ بھی ہے جب اعمال کا اجر کئی کئی گناہوجاتا ہے ،بدنی عبادات کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں لیکن مالی عبادات کو اسلام میں زبردست اہمیت حاصل ہے ،اس مال کے بچائو کے لئے تو انسان کبھی کبھی اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔دراصل انسان کے ہاتھ میں مال ودولت ایک امانت ہے اپنے اور اہل خانہ کی ضروریات اس سے ضرور پوری کرنی ہیںلیکن اس میں سائلین و مستحقین کا خاصا حق ہے ۔حق لفظ میں نے نہیں قرآن نے استعمال کیا ،اس لئے اس حق کی ادائیگی سے پہلوتہی یا کمزوری کا اظہار ’’حق تلفی‘‘ کے زمرے میں آئے گا ۔زکواۃ کا مد تو بطور خاص اسلام نے اسی لئے متعارف کیا ہے ۔۔۔۔اور صدقات کا بھی بطور خاص حکم ہے ۔ہم جس پیغمبر ِ رحمت ؐکے ساتھ وابستہ ہیں اُن کا دست سخاوت اس ماہ اس قدر دراز ہوا کرتا تھا کہ ہوا بھی اس سرعت کا مقابلہ نہیں کرپاتی تھی۔اس لئے لازم ہے کہ ملت کے مفلوک الحال طبقہ و مفلس آشنائوں کا خیال رکھیں اور اُن کی جی بھر کر مدد کریں۔یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ ہم اللہ سے بے حساب مانگیں ،کروڑوں اربوں مانگیں جب دینے کی باری آئے تو ریزگاری دینے پہ آئیں ،بخل کا مظاہرہ کریںاور یہ بھول جائیں کہ دینے والا داتا ہے ،میں بس اس کے صحیح مصرف کا مکلف ہوں،دیں تو وسعت قلبی سے دیں۔وسعت رزق بھی ہوگی اور آلام و آزار سے خلاصی بھی نصیب ہوگی۔
غرض رمضان ایک تربیتی کورس ہے کہ مسلمان کا تعلق اللہ سے قائم ہوجائے ۔حسنات کا شوق پروان چڑھے اور سیٔات سے نفرت ہو۔اور اسی کا نام تقویٰ ہے اور قویٰ کو ہی مقصدِ روزہ و حج گردانا گیا ہے ۔یاد رہے رمضان سلامت گذرا تو سارا سال سلامت گزر جائے گا ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کی روح سمجھ کر صیام و قیام کی توفیق ِ رفیق عطا کرے۔
رابطہ۔7006055300