شیخ ولی محمد
تین ماہ کی طویل سرمائی تعطیلات کے بعد وادی کشمیر میں اب اسکول کھلنے جارہے ہیں جبکہ اساتذہ حضرات سرکاری احکامات کی تعمیل کرتے ہوےپہلے ہی اپنے اپنے اسکولوں میں حاضر ہوئے ہیں ۔ اب بچے طویل وقفے کے بعد ٹیوشن ماحول سے اسکولی ماحول کی طرف منتقل ہو رہے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بالغ افراد بالعموم اور معصوم بچے بالخصوص آزاد پسند ہوتے ہیں ۔ انسان چاہے کسی بھی شعبے میں کام کرتا ہو، وہ پانچ چھ گھنٹے کی کام کے بعد چھٹی کے انتظار میں رہتا ہے۔ سرکاری ملازمین 4 بجے کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں ۔ مزدور ہر روز اسی تاک میں رہتا ہے کہ کب مالک کی طرف سے چھٹی کا اعلان ہو ۔ بچوں میں بڑوں کی نسبت آزادی کا یہ عنصر زیادہ ہی پایا جاتا ہے ۔ وہ ہمیشہ صبح سے شام تک کھیلنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ اس دوران اگر انہیں کھانا بھی نہ دیا جائے تو کوئی بات نہیں ،انہیں فقط کھیل کود سے دلچسپی ہوتی ہے ۔ تعطیلات کے دوران وہ کافی حد تک آزاد رہتے ہیں۔ نہ صبح سویرے سکول وردی پہننے کی فکر اور نہ ہی اسکولی بس کے چھوٹنے کی پریشانی ۔ نہ انہیںہوم ورک کی فکر اور نہ ہی امتحانات کی تیاری کا غم ۔اگر وہ تعطیلات کے دوران ٹیوشن سنٹر بھی جاتے ہیں تو پھر بھی وہاں فقط دوتین گھنٹے تک رہتے ہیں ۔ ٹیوشن سنٹر سے چھٹی کے بعد وہ پھر کھیلنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسکول بچے کے نزدیک ایک جیل اور قید خانہ ہوتا ہے ۔ صبح سویرے گھر سے نکلنا ، وقت پر سکول پہنچنا ، مارننگ اسمبلی میں حاضر ہونا ، ایک طے شدہ ٹائم ٹیبل کے تحت سارے مضامین کا پڑھنا ،ہوم ورک کا چیک ہونا، مختلف امتحانات سے گزرنا ، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل ہونا اور اس طرح کی سرگرمیوں سے بچے ہمیشہ نفرت کرتے ہیں۔ اردو کے مشہور شاعر فیض لدھیانوی نے اپنی ایک نظم ’’ چھٹی کی گھنٹی ‘‘ میں یہی حقیقت بیان کی ہے کہ کس طرح بچے کو10بجے کی گھنٹی سے نفرت ہے جبکہ 4بجے کی گھنٹی سے پیار ہے ۔
تین ماہ کے طویل عرصے پر محیط پر مسرت اور خوشگوار ماحول سے بچوں کو نا خوش گوار سکولی ماحول کی طرف منتقل کرانا بہت ہی نازک اور حساس معاملہ ہے ۔ اس حوالے سے والدین ، سکول انتظامیہ اور بالخصوص اساتذہ حضرات کو اپنا اپنا رول ادا کرنا چاہئے ۔ ایسے مفید اور مثبت کار آمد اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن کو عملاکر بچے ایک بار پھر تعلیمی ادارے سے جڑ جائیں ۔ بچوں کو اسکول کی طرف اس طرح مائل کیا جائے کہ وہ اسے قیدخانہ کے بجائے آرام گاہ تصور کریں۔ سکول کھلنے سے پہلے ہی بچوں کو تعلیمی اداروں کے ساتھ جوڑا جاے ۔
انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر ایک ٹول کا بہترین استعمال کیا جائے ۔اساتذہ حضرات اس سلسلے میں موبائیل فون کے ذریعہ پیشگی ایسے پیغامات بھیج سکتے ہیں جن کے ذریعے بچے سکول کے کھلنے کا بے صبری سے انتظار کریں۔ سکول کے پہلے دن کو ایک قومی اور ملی تہوار کی حیثیت سے منایا جائے ۔ والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو ذہنی طور تیار کریں کہ وہ خوشی خوشی سکول جانے کے لیے ایسے بے قرار ہوں جیسے وہ کسی تہوار کو منانے کے لیے منتظر ہوں ۔ سکول سے جڑی ہوئی ہر ایک چیز جیسے یونیفارم ،شناختی کارڈ ، لنچ بکس، واٹر بوتل وغیرہ تیار رکھیں ۔ اگر ہو سکے تو پہلے روز بچے بیگ کے بغیرہی سکول جائیں ۔ ویسے تو نئی تعلیمی پالسی کے تحت بچوں کو تعلیمی سال کے دوران کم از کم 10دن بغیر بیگ 10bagless days سکول میں گزارنے ہیں۔ کیوں نہ ہم اس کا شمار پہلے ہی دن سے کریں ۔ اگر ہو سکے تو والدین کو چاہیے کہ چھوٹے بچوں کو اس روزخود سکول لے کر جائیں اس سے بچوں میں خوشی محسوس ہوتی ہے اور والدین کو بھی تسلی ہوتی ہے کہ بچہ بخیر و عافیت سکول پہنچ گیا ۔ اساتذہ حضرات سے بھی مخلصانہ گزارش ہے کہ پہلے دن کو خوش آمدید تقریب welcome day کے طور پر منایا جائے ۔ روایتی طور پر یہاں دیکھنے میں آتا ہے کہ پہلے ہی دن اساتذہ حضرات تعطیلات کی ہوم ورک چیک کر کے بچوں میں خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں امتحانات کے لیے تیار رہنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس قسم کی کاروائیوں سے اجتناب کرکے بچوں کا پرجوش استقبال کیا جائے۔ سکول کی طرف مائل کرنے کے لیے تحفہ و تحائف بالخصوص چھوٹے بچوں میں کھانے کی مفید چیزیں تقسیم کی جائیں ۔ بعد میں آپ اس کی قیمت بچوں سے ہی وصول کر سکتے ہیں ۔ سکول کا پہلا دن انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے بقولHary wong ہیری وانگ
The most important day of a person’s education is the first day of school’ not graduation day.’’کسی بھی شخص کی تعلیم کا اہم دن سکول کا پہلا دن ہوتا ہے نہ کہ اس کی گریجویشن ( ڈگری)کا دن ‘‘ لہٰذا اس روز کی تقریب کو شاندار انداز میں منایا جائے ۔ کیمپس کو مختلف بینرس اور چارٹس سے سجایا جائے ۔ صفائی و ستھرائی کا اہتمام کیا جائے۔ خوش آمدید تقریب میں اساتذہ اور طلبہ کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ تقریب میں مقررین اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔ اساتذہ حضرات سکولی تعلیم اور ٹیوشن تعلیم میں فرق کرتے ہوئے یہ واضح کریں کہ ٹیوشن سنٹر فقط تعلم تک ہی محدود ہوتا ہے جبکہ سکول بچوں کو سال بھر تعلیم وتربیت دونوں چیزیں فراہم کرتا ہے۔ تقریب میں بچے آزادانہ ماحول میں ان باتوں کا اظہار کر سکتے ہیں کہ انہوں نے سرمائی تعطیلات کیسے گزاری؟ ایک دو گھنٹے کی تقریب کے بعد بچوں کو چھوڑا جائے ۔ دوسرے روز بھی اس نوعیت کی سرگرمیاں انجام دی جاسکتی ہیں ۔ نصابی کتابوں کو چھوے بغیر بچوں کا رپورٹ نویسی کا پروگرام منعقد کیا جاسکتا ہے جسمیں بچے سرمائی تعطیات کے دوران انجام دی گئی سرگرمیوں اور تجربات کا نچوڑ/ خلاصۃ تحریر کر سکتے ہیں ۔ اس کے لیے کوئی بھی زبان جیسے انگریزی، اردو، کشمیری ، ہندی وغیرہ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ۔ اس سرگرمی سے بچوں کی تخلیقی اور تحریری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کشمیر میں جب سرمائی تعطیلات کے بعد سکول کھلتے ہیں تو روایتی طور اساتذہ حضرات بچوں سے تعطیلات کی پڑھائی اور سیلبس کے مطابق امتحانات لیتے ہیں جسے بچوں پرمضر اثرات پڑتے ہیں ۔ان میں خوف وہراس پیدا ہوتا ہے ۔سال کےآغاز میں ہی وہ سکول جانے سے کتراتے ہیں ۔نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق اب امتحانات اور جانچ و پرکھ کا طریقہ کار بھی بدل گیا ہے ۔ تحریری امتحانات کے بجائے اگر آپ مختلف قسم کی غیر نصابی سرگرمیاں انجام دیں تو اس کے مفید اثرات بچوں پر پڑ سکتے ہیں ۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے۔ “well begin is half done کہ اچھا آ غازہی نصف کارکردگی کے برابر ہے”۔ لہٰذا سیشن کے آغاز میں ہی ایسی کا روائیاں انجام دی جائیں جن کی مدد سے بچے سکول کی طرف مائل ہو سکے ۔ آپ کے پاس ابھی 10 ماہ کا طویل عرصہ ہے۔اس مدت کے دوران آپ بچے کو تفصیل کے ساتھ مکمل تعلیم و تربیت سےلیس کر سکتے ہیں۔ بشرطیہ کہ وہ خوشی خوشی اپنے سکول کی طرف قدم بڑھائے اور ایک نئی شروعات کا اعلان کرے۔
رات نے باندھا اپنا پرچم
اب وہ کہاں ظلمت کے دم خم
حسن مجسم صبح کا عالم
بچوں میں ہے شور یہ پیہم
آؤ چلو اسکول چلیں ہم
[email protected]