طبیب احسن تابش
’’کتابیں جھانکتی ہیں ‘‘ ہمارے مطالعے کی میز پر ہے۔یہ ایس معشوق احمد کے تبصراتی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں مختلف النوع کتابوں پر تیس مضامین شامل ہیں۔معشوق سے میرا رشتہ عاشق و معشوق جیسا نہیں بلکہ ایک برادرِ عزیز کا ہے ۔ان سے یہ رشتہ محبت اور شفقت کا کیسے قائم ہوا اور ان کی یہ کتاب خاکسار تک کیسے پہنچی یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔معشوق کا تعلق کشمیر سے ہے۔ کہاں کشمیر اور کہاں جھارکھنڈ۔پہلے آپ کو اس لطف اندوز داستان سے واقف کراتا ہوں۔ ہوا یوں کہ بہار اردو اکیڈمی سے شائع ہونے والا جریدہ ’’زبان و ادب ‘‘ میں میرا انشائیہ ’’کٹ پیس سینٹر‘‘ شائع ہوا۔ ایس معشوق احمد نے اس انشائیہ کو نہ صرف پڑھا بلکہ اسے پسند بھی فرمایا اور فون کرکے مجھے حوصلہ افزاء کلمات سے نوازا۔ دور سے کسی قلمکار کو اس کی تخلیق پر چند تعریفیں کلمات سے نوازا جائے، اسے مسرت ہوتی ہے جس کا اظہار وہ نہیں کرسکتا۔مجھے ازحد مسرت ہوئی کہ میرے انشائیہ کو کشمیر سے کسی ادب شناس سے سراہا۔رفتہ رفتہ شناسائی بڑھی تو معلوم ہوا کہ ایس معشوق احمد کو صنف انشائیہ سے خاص لگاؤ ہے اور ان کے انشائیوں کے دو مجموعے میں نے دیکھا اور کوتاہیاں شائع ہوچکے ہیں۔میری کتاب تو تو میں میں منظر عام پر آئی تو میں نے معشوق کی خدمت میں ایک نسخہ پیش کردیا۔ معشوق نے میری کتاب ’’توتو میں میں ‘‘ کو نہ صرف پڑھا بلکہ اس پر تبصرہ بھی رقم کیااور اس تبصرے کو کشمیر کے اخبارات میں شائع بھی کرادیا۔یہ خوشی تازہ تھی کہ انہوں نے ایک اور خوش خبری سنائی کہ میری کتاب آنے والی ہے اور اس میں آپ کی کتاب تو تو میں میں پر بھی تبصرہ شامل ہے۔یقین کیجیے یہ خوش خبری سن کر میں بے حد خوش ہوا۔
’’کتابیں جھانکتی ہیں ‘‘ میں مختلف النوع کتابوں پر تیس تبصرے شامل ہیں اور آخر پر مصنف کی تین کتابوں پر تین اہل قلم کے مضامین بھی شامل ہیں۔ایک سواٹھاسی صفحات پر مشتمل ہے اس کتاب میں شامل اپنی بات میں مصنف لکھتے ہیں :’’میری اکثر شامیں آج بھی کتابوں کی صحبت میں کٹا کرتی ہیں اور اچھی کتاب پڑھ کر میری زبان پر مٹھاس آجاتی ہیں جیسے شہد چاٹ لیا ہو ‘‘۔آج کل ہمارے معاشرے میں کم ایسے افراد رہ گئے ہیں جن کا رشتہ کتابوں سے مضبوط ہے اور جو کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ان پر لکھتے بھی ہیں۔اس کے لئے مصنف مبارک بادی کا مستحق ہے کہ انہوں نے کتابوں سے رشتہ استوار رکھا ہے۔ اس کتاب کے بیک کور پر پروفیسر غضنفر کے اس خیال سے مجھے اتفاق ہے کہ ’’بحر کتب کی تہہ سے گوہر آبدار والی سیپیاں کھوج لانا سمندر سے موتیوں والی صدف نکالنے کی مہم سے کم اہم نہیں ہوتی۔معشوق اس معاملے میں عاشق زیادہ نظر آتے جو منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے معرکے سر کرتا جاتا ہے۔ ‘‘
آپ اس کتاب میں شامل کسی بھی مضمون کو پڑھ لیں آپ اس قول کو سچا پائیں گے۔ معشوق کااسلوب نگارش خوبصورت اور پُر کشش ہے ۔صنف انشائیہ سے ان کی دلچسپی ان جملوں سے ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے محمد اسد اللہ کی ہوائیاں کے متعلق رقم کئے ہیں۔لکھتے ہیں :’’صنف انشائیہ سے مجھے ویسا ہی عشق ہے جیسا اکیس سال کے جوان کو اپنی خوبرو محبوبہ سے ہوتا ہے۔ ‘‘ انشائیے سے ان کا عشق اور یہ انداز ظریفانہ دل کو سرور بخشتا ہے۔ قاری عش عش کرتا ہے اور داد دئیے بغیر نہیں رہتا۔میری کتاب ’’توتو میں میں‘‘ کے متعلق معشوق لکھتے ہیں کہ :’’ اس دور اضطراب سے انسان کے گرد اداسی ، پریشانی ، دکھوں اور پریشانیوں نے ایک بلند و بالاقلعہ تعمیر کیا ہےجس کو پھلانگ کر خوشی کے محل میں داخل ہونا انسان کے لیے ناممکن بن گیا ہے۔ اس انتشار میں اگر کوئی قلمکار کسی کے لبوں پر مسکراہٹ اور ماتھے پر ہنسی اور قہقہے کا جھومر سجاتا ہے تو میری نظر میں وہ جنتی ہے۔ ‘‘
ملاحظہ فرمائیے صاحب معشوق نے مجھے جنت کی بشارت دی ہے، اس سے بڑی خوش خبری میرے لئے کیا ہوسکتی ہے۔ بھلا ان خیالات اور ایسی تحریر پر کونسا دل ہوگا جو کیف و سرور میں غوطہ زن نہ ہوگا ۔ ایس معشوق احمد کی کوئی بھی تحریر پڑھ لیجیے ، پڑھنے کا اشتیاق بڑھتا ہی جائے گا ، آپ کے دلوں کی پژمردگی کوسوں دور بھاگ جائے گی اور ایک شگفتگی چہرے پر چھا جائے گی۔ میری یہ بات ان کے انشائیوں پر بھی صادق آتی ہے۔
’’کتابیں جھانکتی ہیں ‘‘ میں معشوق نے کتابوں پر معشوقانہ نہیں بلکہ ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ کتابیں آپ کو علم کے زیور سے آراستہ کرتی ہیں ، آپ کے خیالات کو وسعت عطا کرتی ہیں اور بند الماریوں سے جھانک جھانک کر دیکھتی ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارے خیالات اور علم سے مستفید ہوجائے۔ کتابیں جھانکتی ہیں کا سرورق خوبصورت ، کاغذ عمدہ ، چھپائی بہترین ہے اور اس میں کتابوں کے متعلق رقم کئے گئے خیالات لاجواب ہیں۔مجھے قوی امید ہےکہ اس کتاب کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوگی۔
(رابطہ۔ 9534340212)