غلام قادر
جوش ملیح آبادی برصغیر کے ان چند عظیم شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اردو شاعری کو نہ صرف ایک منفرد اسلوب بخشا بلکہ اسے ایک نئی بلند پروازی عطا کی۔ ان کی شاعری میں جوش، ولولہ، آزادی کا جذبہ، انسان دوستی اور انقلابی خیالات کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ان کا کلام فکری بالیدگی، علمی گہرائی اور جذباتی شدت سے لبریز ہے، جو قاری کے ذہن و دل پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
جوش ملیح آبادی کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ وہ 5 دسمبر 1898 کو ملیح آباد میں پیدا ہوئے، جو آج کے ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کا ایک معروف قصبہ ہے۔ ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی خاندان سے تھا اور اسی بنا پر انھیں بچپن ہی سے بہترین تعلیمی ماحول میسر آیا۔ جوش نے اپنی ابتدائی تعلیم عربی، فارسی اور اردو میں حاصل کی، جس کی جھلک ان کے کلام میں واضح نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں فارسی تراکیب اور عربی الفاظ کا حسن ایک خاص رنگ بھرتا ہے۔
جوش کی شاعری کا بنیادی رنگ انقلابی تھا۔ وہ ایک نڈر اور بیباک شاعر تھے جنہوں نے کبھی بھی روایتی جمود کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کے کلام میں ایک باغیانہ لہجہ پایا جاتا ہے، جو ان کے سیاسی اور سماجی نظریات کا عکاس ہے۔ وہ ان شاعروں میں سے تھے جنہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف آواز بلند کی اور اپنی شاعری کے ذریعے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ یہ اشعار ملاحظہ کریں :
کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں
ان کے اسی انقلابی انداز کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جوش نے اپنی شاعری میں نہ صرف آزادی کے جذبے کو بلند کیا بلکہ انسانیت، مساوات اور محبت کے پیغام کو بھی عام کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ شاعری محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسی قوت ہے جو ذہنوں کو بیدار کرتی ہے اور معاشرتی تبدیلی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ان کی شاعری میں جو سب سے نمایاں عنصر ہے، وہ ان کا سحر انگیز لب و لہجہ ہے۔ ان کے اشعار میں ایک مخصوص موسیقیت پائی جاتی ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان کا کلام جذبات کی شدت، فکر کی گہرائی اور زبان کی برجستگی کا حسین امتزاج ہے۔ ان کے اشعار میں جوش و جذبے کی کیفیت اتنی نمایاں ہے کہ پڑھنے والا خود کو اس کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔یہ بند ملاحظہ کریں :
پائی غنچوں میں ترے رنگ کی دنیا ہم نے
تیرے کانٹوں سے لیا درس تمنا ہم نے
تیرے قطروں سے سنی قرأت دریا ہم نے
تیرے ذروں میں پڑھی آیت صحرا ہم نے
کیا بتائیں کہ تری بزم میں کیا کیا دیکھا
ایک آئینے میں دنیا کا تماشہ دیکھا
جوش ملیح آبادی کی شاعری میں ایک اور نمایاں پہلو ان کا فکری تنوع ہے۔ انہوں نے محبت، فلسفہ، تاریخ، سیاست، آزادی، مذہب اور معاشرتی مسائل پر شاعری کی۔ ان کا کلام وسیع فکری دائرے کا حامل ہے جس میں ہر طرح کے موضوعات کو بڑی مہارت سے سمویا گیا ہے۔ ان کے اشعار میں محبت کی نرمی اور انقلاب کی تیزی دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہی امتزاج ان کے کلام کو دیگر شاعروں سے ممتاز بناتا ہے۔یہ اشعار دیکھیں :
ایک دوشیزہ سڑک پر دھوپ میں ہے بے قرار
چوڑیاں بجتی ہیں کنکر کوٹنے میں بار بار
چوڑیوں کے ساز میں یہ سوز ہے کیسا بھرا
آنکھ میں آنسو بنی جاتی ہے جس کی ہر صدا
گرد ہے رخسار پر زلفیں اٹی ہیں خاک میں
نازکی بل کھا رہی ہے دیدۂ غم ناک میں
ان کی شاعری میں عشق ایک خاص اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ روایتی محبت سے ہٹ کر ایک وسیع تر تصور کو جنم دیتا ہے۔ وہ عشق کو صرف مجازی حسن تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اس میں ایک فلسفیانہ گہرائی پیدا کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں محبت کا تصور ایک ایسی طاقت کے طور پر ابھرتا ہے جو انسان کی روحانی ترقی اور ذہنی بالیدگی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ان کے کچھ اشعار اس گہرائی کی عمدہ مثال ہیں:
راتوں کو مانگنا تھا دعا میری دید کی
وہ منتیں وہ ذوق دعا کون لے گیا
اے شاہ بندہ پرور سلطان نرم دل
دل سے ترے خیال گدا کون لے گیا
پہلی سی وہ کلام میں نرمی نہیں رہی
گفتار سے مزاج صبا کون لے گیا
جوش ملیح آبادی کا ایک اور نمایاں پہلو ان کی نثر نگاری ہے۔ ان کی خود نوشت ’’یادوں کی بارات‘‘ اردو ادب کی شاہکار تصانیف میں شمار ہوتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ان کی زندگی کی داستان ہے بلکہ اس میں برصغیر کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی حالات کی ایک جیتی جاگتی تصویر بھی نظر آتی ہے۔ ان کی نثر بھی ان کے کلام کی طرح شعلہ بار اور پُر اثر ہے جس میں ان کی فکری گہرائی اور زبان پر مہارت نمایاں نظر آتی ہے۔ان کو اپنی بیباکی کے سبب کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ہمیشہ سچ کہنے اور لکھنے کے قائل تھے، جس کی وجہ سے بعض حلقے ان سے ناراض بھی رہتے تھے۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں جوش و جذبہ پیدا کرتی ہے اور انہیں ایک نئے عزم سے روشناس کراتی ہے۔ان کی مشہور تصانیف میں ’’شعلہ و شبنم‘‘، ’’یادوں کی بارات‘‘ (خودنوشت سوانح عمری)، ’’سنبل و سلاسل‘‘ اور ’’حرف و حکایت‘‘ شامل ہیں۔ ان کی خودنوشت ’یادوں کی بارات‘ اردو ادب کی سب سے مشہور سوانح عمریوں میں شمار کی جاتی ہے، جس میں انہوں نے اپنے دور کے سیاسی، سماجی اور ادبی حالات کو انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔جوش ملیح آبادی 22 فروری 1982 کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے، مگر ان کی شاعری اور ادبی خدمات آج بھی زندہ ہیں۔ وہ اردو ادب کے ان چند شاعروں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سماج میں انقلابی سوچ پیدا کی اور ادب کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ان کا نام ہمیشہ اردو کے کلاسیکی اور جدید شاعروں کے ساتھ نمایاں رہے گا۔
جوش کا کلام کسی ایک عہد تک محدود نہیں بلکہ ہر دور کے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی شاعری میں جو فکر اور شعور پایا جاتا ہے، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے اشعار آج بھی اتنے ہی تازہ اور پُر اثر معلوم ہوتے ہیں جیسے وہ کل کہے گئے ہوں۔ ان کا انداز بیان، لب و لہجہ، خیالات کی بلندی اور جذبے کی شدت انہیں اردو شاعری کے عظیم ترین شعراء کی صف میں کھڑا کرتی ہے۔شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جوش ملیح آبادی ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اردو شاعری کو نئے افق عطا کیے۔ ان کا کلام محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک تحریک، ایک فلسفہ اور ایک انقلاب ہے۔ ان کے اشعار میں پوشیدہ پیغام آج بھی زندہ ہے اور آنے والی نسلوں کو روشنی فراہم کرتا رہے گا۔ جوش نے اردو شاعری کو جو توانائی اور وسعت دی ہے، وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی اور ان کا نام اردو ادب کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )
<[email protected]