مولانا قاری اسحاق گورا
اردو زبان برصغیر کی ایک عظیم وراثت ہے، جو صدیوں کے تاریخی، ثقافتی اور لسانی ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ اس زبان نے دنیا بھر میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے اور برصغیر کے تمام مذاہب اور ثقافتوں کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم کچھ سیاسی اور سماجی حلقوں میں اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تواپنے حالیہ بیان میں اردو پڑھنے کو’’مولوی بنانے‘‘ سے ہی تعبیر کیا ہے۔
اردو زبان 12ویں صدی عیسوی میں مختلف زبانوں کے اختلاط سے وجود میں آئی۔ یہ زبان فارسی، عربی، ترکی اور مقامی ہندوستانی زبانوں کے اثرات کے تحت پروان چڑھی۔ مغل دور حکومت میں اردو کو خوب فروغ ملا اور یہ درباری زبان بن گئی۔ اردو کو صوفیائے کرام نے بھی عام لوگوں میں محبت، امن اور بھائی چارے کا درس دینے کے لیے استعمال کیا۔ یہ زبان ہندو مسلم یکجہتی کا ایک اہم مظہر ہے۔ اردو ادب میں ایسے شاہکار تخلیق کئے گئے ہیں جو ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کے دلوں کو چھو لیتے ہیں۔ اردو شاعری نے برصغیر کے تمام طبقات کو متاثر کیا ہے اور محبت، امن اور رواداری کا پیغام دیا ہے۔اردو زبان ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا ایک حسین امتزاج ہے، جہاں مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں نے مل کر ایک مشترکہ تہذیب تشکیل دی۔ ہندو شعراء اور ادیبوں نے اردو ادب میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ منشی پریم چند، کرشن چندر، فراق گورکھپوری اور وشو ناتھ ساٹھے جیسے بڑے ادیبوں نے اردو میں ایسے شاہکار تخلیق کئے جنہوں نے زبان کو مزید مقبول بنایا۔اردو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی زبان ہے جو ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی شناخت کی نمائندہ ہے۔ یہ کہنا کہ اردو پڑھنے والا مولوی بن جاتا ہے یا کسی خاص نظریاتی سوچ کا حامل ہو جاتا ہے، تاریخی حقائق اور زمینی حقیقت کے خلاف ہے۔اردو زبان کو اکثر مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے، جو ایک تاریخی غلط فہمی ہے۔ برطانوی راج کے دوران’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت زبانوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان اور ہندی کو ہندوؤں کی زبان قرار دینے کی کوشش کی گئی، حالانکہ یہ دونوں زبانیں ایک ہی جڑ سے نکلی ہیں اور ایک دوسرے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں۔آزادی کے بعد بھی مختلف سیاسی جماعتوں نے اردو کو اقلیت کی زبان قرار دے کر اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ رویہ اردو زبان کے فروغ میں رکاوٹ بن گیا اور اس زبان کوسوتیلے سلوک کا شکار بنایا گیا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سنسکرت پڑھنے والا صرف پنڈت یا پجاری بن سکتا ہے؟ کیا انگریزی پڑھنے والا مغربی ثقافت کو اپنانے پر مجبور ہو جاتا ہے؟ زبان کا تعلق کسی خاص پیشے یا نظریے سے نہیں ہوتا۔ اُردو پڑھنے والا ایک باشعور انسان بن سکتا ہے، جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔
اردو زبان تعلیم کے مختلف میدانوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صرف ادب اور شاعری کی زبان نہیں ہے بلکہ سائنس، فلسفہ، تاریخ اور سیاست کے موضوعات پر بھی اردو میں وسیع مواد موجود ہے۔ ہندوستان کے کئی بڑے ماہرین تعلیم اور دانشوروں نے اردو میں علمی اور تحقیقی کام کئے ہیں۔اردو میں تعلیم حاصل کرنے والا مولوی بھی بن سکتا ہے، سیاستدان بھی، سائنسدان بھی اور ادیب بھی۔ اردو زبان میں موجود تعلیمی مواد طلبہ کو ایک وسیع علمی دنیا سے جوڑتا ہے اور ان کے شعور کو وسیع کرتا ہے۔ اردو کو محض مذہبی تعلیمات تک محدود کر دینا ایک ناانصافی ہے۔
اردو زبان کو آج کے جدید سماج میں بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ زبان انسانی جذبات، روایات اور تجربات کو ایک منفرد انداز میں بیان کرتی ہے۔ اردو کا حسن اور اس کی گہرائی ہر انسان کو متاثر کرتی ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا قوم سے ہو۔ اردو نے ہمیشہ انسان دوستی اور امن کا درس دیا ہے اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے۔
اردو زبان کے بارے میں تعصبات کو ختم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ زبانیں قوموں کو جوڑنے کا ذریعہ ہوتی ہیں، نہ کہ ان میں نفرت کے بیج بونے کا۔ اردو زبان کو مذہب، سیاست یا کسی خاص طبقے سے جوڑنے کی کوشش کرنا سماجی تقسیم کو بڑھاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان کو اس کی اصل حیثیت میں قبول کیا جائے اور اسے ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی وراثت کے طور پر فروغ دیا جائے۔ یہ زبان محبت، امن اور بھائی چارے کا درس دیتی ہے، جو ہندوستان کی اصل روح ہے۔نوجوان نسل کو اردو زبان کی اہمیت سمجھانے اور اس زبان سے محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو ادب، شاعری اور نثر میں ایسی خوبصورتی اور گیرائی ہے جو ذہنوں کو روشن کرتی ہے اور دلوں کو نرم کرتی ہے۔ اردو کو جدید تعلیم، میڈیا اور ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ کر اس زبان کو ایک نئی زندگی دی جا سکتی ہے۔ اردو زبان میں علمی مواد کو ڈیجیٹلائز کر کے اور نئی نسل کو اردو میں تخلیقی کام کرنے کی ترغیب دے کر اس زبان کے فروغ میں مدد مل سکتی ہے۔(جاری)
[email protected]