گلفام بارجی
21 فروری کو ہرسال دنیا بھر میں مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہےجس کا مقصد لسانی اور ثقافتی تنوع کے بارے میں آگاہی اور کثیرلسانی کو فروغ دینا ہے۔سال میں ایک بار مادری زبان کا دن منانے کو سب سے پہلے یونیسکو کے ذریعہ 17 نومبر 1999 کو اعلان کیا گیا اور جس سے سال 2002 میں اقوام متحدہ کی قرارداد کی منظوری کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ مادری زبان کا دن ایک وسیع تر اقدام کا حصہ ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں کے ذریعے استعمال ہونے والی تمام زبانوں کا تحفظ جیساکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 16 مئی سال 2007 کو اقوام متحدہ کی قرارداد 61/266 میں اپنایا، جس نے سال 2008 کو زبانوں کے بین الاقوامی سال کے طور پر بھی قائم کیا۔ مادری زبان کا عالمی دن منانے کا خیال بنگلہ دیش کی پہل تھی۔ اب جب کہ ہرسال 21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس دن دنیا بھر میں تقاریب اور سیمناروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان تقاریب اور سمیناروں میں مقررین مادری زبان پر گھنٹوں بھر تقاریر کرکے مادری زبان کی اہمیت اور افادیت کو بیان کرتے ہیں اور اس کے تحفظ کے لئے بڑی بڑی قسمیں کھاتے ہیں ۔ہمارے ملک میں بھی 21 فروری کو ہر سال کچھ اسی طرح کی محفلیں سجائی جاتی ہیں اور محفلوں میں مادری زبان کے تحفظ پر زور دیتے ہیں، اہمیت اور اس سےآنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لئے اقدامات کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو عملی طور پر یہ اقدامات فائلوں تک ہی محدود رہتے ہیں اور آنے والے سال کے 21 فروری کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ایک بار اسی طرح کی تقاریب اورسمینار منعقد کرنےکے فراق میں رہتے ہیں۔ یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مادری زبان کا عالمی دن منا کر ہم اسے صرف اپنی ذمہ داری نبھانے تک ہی محدود رکھتے ہیں یا پھر سال بھر مادری زبان کے پھیلاؤ اور تحفظ کے لئے کام کرتے ہیں؟ یہاں پر میں صرف اپنے ہی ملک کا ذکر کرتا ہوں، جب ہم ملک کی کسی دوسری ریاست میں جاتے ہیں تو ہمیں وہاں کے لوگ اپنی مادری زبان میں ہی بات کرتے نظر آئیں گے، لیکن یہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ حالانکہ جموں و کشمیر میں مختلف قسم کی زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں پنجابی،پہاڑی،گوجری،بلتی، شینا،ڈوگری، کشمیری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔جموں میںزیادہ اکثریت ڈوگری زبان بولنے والوں کی ہے اور کشمیر میں کشمیری زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔حالانکہ جموں صوبے میں بھی کشمیری زبان بولنے والوں کی ایک خاصی تعداد ہے لیکن افسوس کا مقام ہے، کشمیر کا عام کشمیری اپنی مادری زبان بولنے میں شرم محسوس کرتا ہے حالانکہ اس سے مادری زبان اس لئے کہا گیا ہے کہ جب بچہ ماں کی کوکھ سے جنم لیتا ہےتو وہ ماں ہی ہوتی ہے جو اپنے بچے کو پہلے زبان سکھاتی ہے اور ماں کی گود میں رہ کر بچہ جو زبان سیکھ جاتا ہے ،اس سے مادری زبان کہتے ہیں لیکن افسوس یہاں جب کوئی ماں بچے کو جنم دیتی ہے تو وہ ماں پڑھی لکھی ہو یا اَن پڑھ وہ اپنے بچے کو اپنی زبان کے بدلے دوسری زبان سکھانے میں فخر محسوس کرتی ہے جبکہ اس ماں کو دوسری زبان کے تلفظ اور الفاظ کے بارے میں کوئی جان پہچان نہیں ہوتا اور اس طرح وہ ماں پہلے اپنی مادری زبان گلا گھونٹ دیتی ہے اور ساتھ ہی دوسری زبان کو بھی تہس نہس کردیتی ہے۔ ہماری آج کل کی نئی پود نہ تو اپنی مادری زبان اچھے ڈھنگ سے بول پاتے ہیں اور نہ دوسری زبان کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ،اگرچہ آج کل Competition کا زمانہ ہے اور ہر ماں باپ کی یہی خواہش ہوتی ہےکہ ان کی اولاد سب سے آگے نکل جائے اور ایسا آجکل کے زمانے میں جائز بھی ہے ۔بچے کو ہر ایک زبان سے آشنا رکھو، لیکن اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہماری اولاد پہلے اپنی مادری زبان بولے بعد میں دیگر دوسری زبانیں۔ آپ اپنے بچے کو بڑے سے بڑے انگریزی اسکول میں داخلہ کراؤ، لیکن گھر میں بچے کو اپنی مادری زبان میں ہی بات کرانے کی عادت ڈالیں۔اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کسی بچے کے نانا، نانی یا دادا، دادی اَن پڑھ ہیں اور جب بچہ اپنی مادری زبان سے ہٹ کر ان سے کسی غیر زبان میں بات کرتا ہےتو نانا نانی یا دادا دادی اس زبان کو بولنے یا سمجھنے سے کوسوں دور ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نانا، نانی یا دادا، دادی جو پیار بچے کو اپنی مادری زبان میں دینا چاہتے ہیں وہ بچہ اس پیار سے محروم رہ جاتا ہے۔ایسا کرنے سے ہم یہ امید کیسے رکھ سکتے ہیں کہ ہماری مادری زبان آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ہیں؟ یا پھر ہم اگلے سال 21 فروری کا انتظار کریں گے کہ اس دن ہم مادری زبان کا عالمی دن دھوم دھام سے منائیں گے اور بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ یہ کہیں گے کہ ہم مادری زبان کے فروغ اور اس کے تحفظ کے لئے دن رات کام کرتے ہیں؟ جبکہ عملی طور پر اور زمینی سطح پر اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اگر اس طرح کی ہماری سوچ ہے تو وہ دن دور نہیں، جب ہم یہ کہنے کے لئے مجبور ہوجائیں گے کہ ہماری بھی مادری زبان ہوا کرتی تھی۔ اس سے پہلے کہ یہ دن ہمیں دیکھنے کو نہ ملے آو ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی مادری زبان کی اہمیت اور افادیت سے روشناس کریں اور انہیں اپنی مادری زبان میں ہی بولنے کی عادت ڈالیں اور آنے والی نسلوں کے لئے ہم اپنی مادری زبان کی حفاظت ،پھیلاؤ اور فروغ دینے کے لئے زمینی سطح پر عملی طور کام کریں، کیونکہ مادری زبان کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
[email protected]