جی پی فنڈ اورSLI کی ادائیگیاں ستمبر 2024سے نہیں ہوسکیں،کروڑوں کی بلیں واجب الادا
اشفاق سعید
سرینگر//جموں کشمیر کا خزانہ خالی ہے اور پچھلے کئی ماہ سے ملازمین کو جی پی فنڈ کی ادائیگیاں بھی نہیں ہوپائی ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ کشمیر کی ٹریجریوں کیلئے ستمبر سے کوئی ادائیگی نہیں ہوئی ہیں اورکروڑوں کی بلیں واجب الادا ہیں۔سب سے پریشان کن صورتحال سبکدوش ملازمین کی ہے، جنہیں واجب ادائیگیاں نہیں کی گئی ہیں۔ ٹریجریاں خالی ہونے کے نتیجے میں سینکڑوں حاضر اور سابق ملازمین سمیت ٹھیکیدار اپنی ہی جمع پونجی حاصل کرنے میں ناکام ہیں اور ذہنی کوفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ٹریجروں میں کروڑوں روپے کی بلیں کئی ماہ سے دھول چاٹ رہی ہیں۔جموں و کشمیر کی مالی ذمہ داریاں اس قدر بڑھ گئیں ہیں کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ان کے خزانے خالی ہیں۔ خالی خزانوں نے ٹھیکیداروں، پنشنرز، ریٹائرڈ ملازمین اور عوام کو سخت مشکلات میں ڈال دیا ہے کیونکہ انہیں اپنے روزمرہ کے کام چلانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔27جنوری کووزیر اعلیٰ نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ UT کی مالی حالت خراب ہے لیکن امید ہے کہ حکومت ہند ان کی حکومت کو بیل آئوٹ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ یونین ٹیریٹری کے خزانے خالی ہیں اور ان کی حکومت کے لیے تنخواہیں اور پنشن ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ترقی کے لیے، فنڈز کی فراہمی میں بہت زیادہ رکاوٹیں نہیں ہیں۔ لیکن تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے لیے، جب خزانے خالی ہوں تو ہمارے لیے خلا کو پر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔”اس کے ازالے کے لیے صورتحال مزید فوری اور سنگین ہو گئی ہے کیونکہ جاری مالی سال 2024-2025 میں صرف دو ماہ رہ گئے ہیں۔ ٹھیکیداروں، پنشنرز اور ریٹائرڈ ملازمین کے جنرل پروویڈنٹ فنڈ کے تئیں حکومت کی ذمہ داریاں خالی خزانے کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں۔”حکومت پر ٹھیکیداروں کے 3000 کروڑ روپے سے زیادہ واجب الادا ہیں۔جی پی فنڈ اور ریٹائرڈ ملازمین کو دیگر فوائد کے طور پر1000 کروڑ اور ترقیاتی شعبے میں، 4ہزار کروڑ سے زیادہ بقایا ہیں۔مرکز کی طرف سے ابھی تک صرف 50 فیصد فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔رواں مالی سال کے لیے 1.18 لاکھ کروڑ کے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے 22,600 کروڑ مختص کیے گئے تھے، لیکن ان میں سے 40% فنڈز وقت کی قلت اور سستی، افسروں کی نااہلی اور انجینئرنگ محکموں میں اضافی چارجز کی وجہ سے ضائع ہو نے کی دہلیز پر ہے۔گزشتہ مالی سال (2023-2024) سے واجبات کی ادائیگی کے لیے اضافی مالی مدد مانگی گئی ہے، جو بڑھ کر 10,000 سے 12,000 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سینکڑوں سبکدوش ملازمین کی لیو سیلری اور گریجویٹی کی ادائیگیاں اپریل 2024سے زیر التوا ہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو ٹھوکریں کھانا پڑرہی ہیں۔23ستمبر 2024سے سبھی سبکدوش ملازمین کے جی پی فنڈ اور SLIکیسز بھی زیر التوا پڑے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک سابق فائنا نشل کمشنر نے قریب 3سال قبل ایک فرمان جاری کیا تھا جس میں فائنانس ڈیپارٹمنٹ کو ہدایات دی گئی کہ وہ سبھی سرکاری محکموں کی جانب سے کسی بھی قسم ادائیگی پر فوری روک لگائے اور تب تک ملازمین کا جی پی فنڈ بھی ادا نہ کی جائے جب تک نہ فائنا نشل کمشنر سے باضابطہ اجازت حاصل کی جائے۔146ملازمین، جو سبکدوش ہوچکے ہیں، اپنے بچوں کی شادیاں نہیں کر پارہے ہیں کیونکہ عمر بھر کی کمائی انہیں ادا کرنے میں 6ماہ سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے۔سبکدوش ملازمین کیساتھ ساتھ حاضر سروس ملازمین کیلئے بھی مشکل ترین صورتحال پیدا ہوئی ہے اور ایسے سینکڑوں کیسز ہیں جن میں حاضر سروس ملازمین نے ہنگامی نوعیت کی صورتحال وقوع پذیر ہونے کے باعث ایڈوانس جی پی فنڈ کیلئے درخواستیں دی ہیں لیکن ان کے کیسز بھی زیر التوا ہیں۔