Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

دنیا میں سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں مادری زبان کا دن تاریخی حیثیت کا حامل

Mir Ajaz
Last updated: February 20, 2025 11:06 pm
Mir Ajaz
Share
14 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عاشق آکاش

دنیا کے ہر سماج و تہذیب میں زبان اپنی شناخت اور ساخت کی وجہ سے ایک منفرد اور نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔ مواصلاتی نظام ہو یاسماجی انضمام، تعلیم و ترقی ہو یا تجارتی لوازمات اس نے زندگی کے ہر گوشے تک رسائی حاصل کی ہے۔ اگرخالق ِکائنات نے انسان کو اشرف المخلوق کے شرف سے نوزا ہے تو زبان اس مخلوقیت کے تقاضے پر کھرا اترنے کے لئے پائے دان کا کام کرتی ہے۔ زبان انسانی جذبات ،احساسات اور تعلقات کو ظاہر کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ دنیا میں سات ہزار سے زائدزبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے دوہزار ایسی زبانیں ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد صرف ایک سے دو ہزار افراد تک ہی سمٹ گئی ہے۔پانچ ہزار ایسی زبانیں ہیں جن کو مادری زبان کا درجہ حاصل توہے لیکن دن بہ دن اپنا وجود کھونے کے زمرے میں شامل ہو رہی ہیں۔ اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ مینڈرین چینی کو دنیا میں سب سے زیادہ بولنے والی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ جس کے بولنے والوں کی تعداد تقریباًسواارب افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد اسپینی ، انگریزی، عربی اور فرانسیسی زبانوں کا شمار بالترتیب دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اردو ان زبانوں کے بعد سب سے نمایاں زبان مانی جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ زبان تقریباً دنیا کے کونے کونے میں اب پھیل گئی ہے۔ ہمارے برصغیر سے لوگوں کی ہجرت نے اس زبان کو دنیا کے لگ بھگ تمام ممالک میں پہنچا دیا اوراسکے پھلنے پھولنے کا کام سر انجام دیتے رہے۔اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ عا لمیت نے بیشتر زبانوں کو خطرے کی زد میں لایا تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ انگریزی کا دبدبہ بھی بڑھایا ہے۔جس سے کئی زبانیں مکمل طور پر معدوم ہو رہی ہیں۔یونیسکو کے لسانی نقشے کے مطابق ہر سال دنیا کی کئی زبانیں خصوصاً مادری زبانیں محدودہورہی ہیں۔ان زبانوں کے معدوم ہونے کے باعث ہم بہت سارے سماجی، ثقافتی اطلاعاتی اور روشن مستقبل کے مواقعے کھو رہے ہیں۔ یہاں یہ بات کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ زبان کی ترقی و ترویج اور اس کی زندگی کا انحصاراس کے بولنے اور لکھنے والوں پر ہوتا ہے اور رسم الخط اس کی پہچان اورشناخت کا ضامن ہوتا ہے۔ اس بات کا تقریباً ہم سب کو علم ہے کہ انسان کے حافظے اور یاداشت تک رسائی صرف اور صرف زبان سے ہی ہوتی ہے۔ اس زبان سے میری مراد مادری زبان ہے۔ وہ زبان جس میں ماں اپنے بچے کو لوری سناتی ہے، بولنا سکھاتی ہے، بچہ اپنی تہذیب وتمدن کو جان جاتا ہے۔ اپنی تہذیب اور ثقافت کا ہر پنہ شعور اور تحت الشعور میں تحریر کرتا ہے۔ مادری زبان کی تعریف سورج کی طرح تابناک اور واضح ہے۔ڈاکٹر حسن رضا صاحب کے مطابق انسان شعور اور تحت الشعور کا سفر مادری زبان کی قیادت میں ہی کرتا ہے۔ کیونکہ مادری زبان انسان کی فطرت و جبلت کا جزولانیفک ہوتی ہے۔مادری زبان انسان کی فطرت میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ اس کی لسانی اور سائنٹفک اہمیت اظہر من الشمس ہے۔اس کی ترقی و ترویج ایک قوم کی ترقی کی ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے عظیم دانشوروں، مفکروں ، ماہرِ لسانیات اور سائنس دانوں نے مادری زبان کو انسانی غورو فکر اور ذریعۂ اظہار کا ایک اہم، کامیاب اور صحت مند وسیلہ ٹھہرایا ہے۔انعام اللہ خان شروانی کے مطابق،ــ’’ مادری زبان وہ زبان ہے جس سے انسان جذباتی طور پرمنسلک ہوتا ہے۔یہ وہ زبان ہے کہ اگر کوئی شخص اس زبان کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان کو مادری زبان بنا لے تواس صورت میں وہ ذہنی طور پر زندہ تو رہ سکتا ہے مگر جذباتی لحاظ سے مفلوج،بنجر اور سپاٹ ہو جائے گا۔‘‘یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ماں کی گود بچے کا پہلا مکتب ہوتی ہے۔ بچے کی تعلیم و تربیت میں مادری زبان کو ہی اہمیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ماہرینِ تعلیم نے بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے مادری زبان استعمال کرنے پر ہی زور دیا ہے۔ سائنسی ماہرین کے مطابق مادری زبان بچوں کو بے شمار ذہنی اورجسمانی امراض سے بچاتی ہے۔ ان کی پرورش میں مادری زبان ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک مادری زبان پرزور دے رہے ہیں۔جس کی مثالیں ہمیں چین، روس اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ملتی ہیں جہاں ثانوی درجے تک کی تعلیم مادری زبان میں ہی دی جاتی ہے اور اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ان ممالک کی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے ۔ہندوستان میں بھی نئی قومی تعلیمی پالیسی کی اجرائی نے مادری زبان پر زور دیا ہے۔ پالیسی کے مطابق ابتدائی سطح پر تعلیم و تربیت میں مادری زبان کو ایک اہم مقام حاصل ہے اور ابتدائی سطح پر درس و تدریس کی خاطر مادری زبان کی وکالت کی گئی ہے۔یہاں اس بات کا ذکر لازم ملزوم ہے کہ مادری زبان طلباء میں ورث و ثقافت کی منتقلی کی خاطر مؤثر ثابت ہوتی ہے۔اس سے طلباء درس و تدریس کے عمل میں دل و جان جُڑے رہتے ہیںجس سے مثبت نتائج حاصل ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مادری زبان کی بدولت بچہ اپنے جذبات، احساسات کو تجربات کو احسن طریقے سے ظاہر کر سکتا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق :
� مادری زبان کی مدد سے بچوں کو اپنی ثقافت سے جڑے رہنے میں مدد ملے گی۔
� مادری زبان میں درس و تدریس کے ذریعے طلباء میں تصورات کی بہتر سمجھ پیدا کی جاسکتی ہے۔
�مادری زبان میں تعلیم کے ذریعے بہتر اکتسابی نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
�مادری زبان میں تعلیم کی وجہ سے طلباء میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور وہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات و تصورات کا اظہار کر سکیں گے۔
انہی حقائق کو اُجاگر کرنے کے لئے پوری دنیا میںہر سال ۲۱ فروری کو مادری زبان کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن کوئی عام دن نہیںبلکہ ایک تواریخی حیثیت کاحامل ہے ۔ اسی دن بنگالی زبان کو مادری زبان کا درجہ دلانے کی خاطر ۱۹۵۲ء میں ڈھاکہ ینیورسٹی کے چار طلباء شہید ہو گئے تھے۔ اور یوں اس دن کا آغاز بنگلہ دیش کی جدوجہد سے ہوا۔ اس دن کی تصدیق اور منظوری اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۹۹۹ء میں دے دی جس کے بعد سنہ ۲۰۰۰ ءسے اس کو با ضابطہ طور پر ہر سال منایا جا رہا ہے۔ اور اسی کے پسِ منظر میں ۲۰۰۸ء کو زبانوں کا عالمی سال بھی قرار دیا گیا۔زبان کے تعلق سے کسی دن کو مخصوص کیا جائے اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اس زبان کی سمت رفتار کا جائزہ لیا جائے اوراسکے فروغ کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن کو ابھی فرنگی پھندے سے آزاد ہی نہیں کر پائے ہیں۔ ہم اب تک انگریزی کو ہی ترقی کا سبب ٹھہراتے ہیں ۔اور اس ظاہری فیشن کی جھکڑ نے ہمارے معاشرے کی صورتحال ہی بدل ڈالی ہے۔ اگرچہ مادری زبان متفقہ طور پر ذہنی نشو نما کی بنیاد سمجھی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس ہم نے اپنی مادری زبان ’کشمیری‘ کو بالائے تاک رکھا ہوا ہے ۔ یہ زبان کوئی نئی زبان نہیں بلکہ اس کی تواریخ سات سو سال پرانی ہے ۔ داردک زبانوں میں یہ واحد ایک زبان ہے جس کی ایک منفرد پہچان اور ادب ہے۔یہ وہ زبان ہے جو نند ریشی ،شمس فقیر اور لل عارفہ جیسی شخصیات کی صوفی شاعری سے مالا مال ہے۔ جس میں شتی کنٹھ، حبہ خاتون اور رسُل میر کے عشقیہ کلام کی فراوانی ہے۔ جس میں مہجور اور زندا کول کی ندائیں شامل ہیں۔یہ وہ زبان ہے جس میں بلا مذہب و ملت زندگی کا فلسفہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک سماج کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک رسم الخط ہی نہیں بلکہ ایک ثقافتی ورثہ ہے۔لیکن یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ ہم اس سماج کی اصلیت سے کوسوں دور آچکے ہیں ۔ آج ہم اس خوش فہمی میں رہ رہے ہیں کہ سمیناروں، مشاعروں اور لسانیاتی پروگراموں سے ہی ہماری مادری زبان کی ترقی ممکن ہے۔ لیکن اپنا محاسبہ کرنا ہم کو کبھی گنوارا ہی نہیں ہوتا کہ یہ زبان ہمارے گھروں سے بے دخل ہو رہی ہے۔ ہماری فرنگی سوچ نے اس کا جنازہ تو بہت پہلے ہمارے گھروں سے نکالا ہے۔ اگر والدین کی یہ سوچ ہے کہ انکے بچے انگریزی سیکھ کر ترقی کی بلندیوں میں پرواز کریں گے اور مادری زبان کی بول چال اس ترقی میں روک ڈال سکتی ہے تو وہ خوابِ غفلت میں رہ رہے ہیں ۔ ان کا ذہن مادی دور کی ٹھاٹ بھاٹ نے آلودہ کر رکھا ہے۔ لیکن سچائی بالکل اس کے برعکس ہے۔ایک بچے کی کامیابی کا راز مادری زبان کی تعلیم میں ہی چھُپا ہے۔ مادری زبان کی بدولت نہ صرف وہ دوسری زبانوں کو بلکہ بیشتر علوم و فنون کو بھی آسانی سے سیکھ سکتا ہے اور اپنی علمی و سماجی زندگی کا سفر احسن طریقے سے گذار سکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل مادی زبان سے بالکل ناواقف ہو رہی ہے۔اس میں ان معصوموں کی کوئی غلطی ہی نہیں! ہم تو اپنی بناوٹی شان بان کی خاطر ان سے یہ ورثہ چھین رہے ہیں۔ان کے ادبی اور ثقافتی ورثے کی کھلم کھلا لوٹ ہو رہی ہے۔ شائد ہم اس بات سے بے خبر ہیںکہ یہ لوٹ آگے چل کر ایک سماجی ناسور کی شکل اختیار کر لے گی۔ ایک ایسی صورتحال جس کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ایسے حالات جن کو ہم نے خود دعوت دی ہے۔ مستقبل میں ہماری نئی نسلیں ہمارا دامن ضرور پکڑیں گی۔ہم سے ایک دن ضرور یہ سوال ہوں گے کہ انکا وجود کیا ہے؟ انکا ادب کیا ہے؟ انکی ثقافت کیا ہے؟ ان کا ورثہ کیا ہے؟لیکن وقت تب بہت دور نکل چکاہوگا۔
عالمی یومِ مادری زبان بھی اسی بات کی تصدیق کرتا ہے کہ دنیا میں زبانوں کے وجود کو برقرار رکھا جائے اور زبان کے بولنے والوں کو یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ زبان کی زندگی اور اس کے فروغ کا انحصار صرف اور صرف بولنے والوں پر ہی منحصرہے، مزید معاشرے اور ثقافت کو برقرار رکھنے، سماجی ترقی کو یقینی بنانے اورتعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی خاطر مادری زبان کادامن تھامنا نہایت ہی ضروری ہے۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے گھرانوں میں نئی نسلوں کو ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ مادری زبان کے الفاظ بھی پلائے جائیں ۔ مادری زبان کے تئیں اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیں۔ تاکہ ورث و ثقافت کی امانت میں کوئی خیانت نہ ہو پائے اور آنے والے وقت میں ہم کو اس زبان کے زوال کا رونا نہ رونا پڑے۔
رابطہ۔ 9906705778 [email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
صحت سہولیات کی جانچ کیلئے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کاپونچھ دورہ تعمیراتی منصوبوں اور فلیگ شپ پروگراموں کی پیش رفت کا جائزہ لیا
پیر پنچال
پولیس نے لاپتہ شخص کو بازیاب کر کے اہل خانہ سے ملایا
پیر پنچال
آرمی کمانڈر کا پیر پنجال رینج کا دورہ، سیکورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا آپریشنل برتری کیلئے جارحانہ حکمت عملی وہمہ وقت تیاری کو ضروری قرار دیا
پیر پنچال
سندر بنی میں سڑک حادثہ، دکاندار جاں بحق،تحقیقات شروع
پیر پنچال

Related

کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025
کالممضامین

! ’’ناول۔1984‘‘ ایک خوفناک مستقبل کی تصویر اجمالی جائزہ

July 11, 2025
کالممضامین

نوبل انعام۔ ٹرمپ کی خواہش پوری ہوگی؟ دنیائے عالم

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?