ماحولیات
محمدعرفات وانی
قدرت کی طرف سےیہ دنیا جو ہمیں عطا کی گئی ہے، ایک عظیم نعمت ہے۔ ہر دریا، ہر ندی، ہر پہاڑ اور ہر سانس لینے والی ہوا، ہمارے لیے ایک امانت ہے۔ مگر افسوس کہ آج ہم نے اپنی بے حسی، غفلت اور خودغرضی کے باعث ان نعمتوں کو آلودگی، گندگی اور بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ صفائی جو نہ صرف ہماری تہذیب و تمدن بلکہ ہمارے ایمان اور اجتماعی ضمیر کی عکاسی کرتی ہے، ہم نے اسے محض ایک نعرہ بنا دیا ہے۔ حقیقت میں یہ محض جسمانی نظافت کا معاملہ نہیں بلکہ ایک مہذب، باشعور اور دین دار قوم کے کردار کا آئینہ ہے۔دراصل جیسے جیسے ہم فطرت سے دور ہوتے جارہے ہیں، اُتنا ہی ہمارے لیے یہ یاد رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ ہم اس کا حصہ ہیںاور ہم اس بات کو نظر انداز کرتے جارہے ہیںکہ دیگر جانوروں کی طرح ہم بھی ایک جاندار ہیں۔ ہم سیارہ زمین کے اجزا سے بالاتر نہیں ہیںبلکہ اُن کے محتاج ہیں۔ ہمارا اس سیارے پر محض اتنا ہی حق ہے جتنا کہ اس زمین پر موجود دیگر مخلوقات کاہے۔بے شک تیزی سے بڑھتا ہوا موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران ایک عالمی بحران ہے جو تمام پودوں اور جانداروں کو متاثر کررہا ہے لیکن یہ کہنا کہ تمام انسان اس کے ذمہ دار ہیں بالکل درست نہیں ہے۔ارضیاتی تاریخ کے اعتبار سے انسان کا ارتقا بجلی کی سی تیزی سے ہوا ہے اور یہی بات ہمیں خوفزدہ کررہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ صنعتی انقلاب شروع ہونے سے دسیوں ہزاروں سال پہلے ہماری بنیاد کسی غیر مستحکم مادے پر رکھی گئی ہو۔ کیا ہمیں بطور مخصوص جاندار کچھ زیادہ ہی عطا کردیا گیا کہ ہم اپنے بھلے سے بھی کہیں زیادہ کی سوچتے ہیں؟ یا ہم خود کو بدل سکتے ہیں؟کیا ہم اپنی مہارتیں، علم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ایسا ثقافتی بدلاؤ لاسکیں گے جو ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ بدلے گا تاکہ ہم ماحولیاتی اور موسمیاتی بحران سے نمٹ سکیں؟ لیکن جب ہم اپنی معاشرتی زندگی کے طرزِ عمل اور خدو خال پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے اس خطے میںماحولیاتی آلودگی ہماری تہذیب کی زبوں حالی کا بخوبی عکاسی کررہی ہے۔ظاہر ہے کہ کسی قوم کی اصل ترقی سڑکوں، عمارتوں اور جدید سہولتوں میں نہیں بلکہ اس کے اخلاق، ضمیر اور طرزِ زندگی میں ہوتی ہے۔ آج اگر ہم اپنی گلیوں، بازاروں، ندیوں اور دریاؤں پر نظر ڈالیں تو ہر طرف گندگی، کوڑا کرکٹ اور آلودگی کا راج نظر آتا ہے۔ ندیوں میں پلاسٹک کے ڈھیر، گلیوں میں بکھرا ہوا کچرا اور فضاء میں زہریلا دھواں اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی تہذیب سے بہت دور جا چکے ہیں۔
ندیوں کی زبوں حالی ہمارا اجتماعی جرم : ۔
کبھی ہمار اس خطے کی ندیاں زندگی کی علامت ہوا کرتی تھیں، جن کے کنارے بستیاں آباد ہوتیں، جہاں بچے کھیلتے، عورتیں پانی بھرتیں اور کھیت سیراب ہوتےتھے۔ مگر آج وہی ندیاں بدبو دار نالوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ہم نے ان میں پلاسٹک، صنعتی فضلہ، گندگی اور حتیٰ کہ بچوں کے گندے ڈائپرز تک پھینک کر انہیں زہر آلود کر دیا ہے۔ وہ پانی جو کبھی صاف و شفاف ہوا کرتاتھا،اور بغیر کسی فِلٹریشن کے استعما ل ہوا کرتا تھا، آج زہریلا بن چکا ہے اور جس سے استعمال سے اب خوفناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
ہمارےتعلیم یافتہ بے شعورلوگ : ۔
ہم خود کو تعلیم یافتہ کہتے ہیں، مگر ہماری حرکتیں جہالت کی عکاسی کرتی ہیں۔ اگر تعلیم صرف ڈگریوں کے حصول کا نام ہوتا تو شاید ہم آج ترقی یافتہ ہوتے، مگر حقیقی تعلیم وہ ہے جو شعور، احساسِ ذمہ داری اور مہذب طرزِ زندگی سکھائے۔ اگر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص بھی سڑک پر کچرا پھینکنے، ندیوں کو آلودہ کرنے اور پانی ضائع کرنے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتا تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ؟
صفائی ایمان کا حصہ اور ہماری بے حسی : ۔
ہمارا دین اسلام صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے۔ مگر ہم نے اس اصول کو محض ایک حدیث کے طور پر یاد رکھا ہے، عمل کی دنیا میں اسے فراموش کر دیا ہے۔ ہم مسجدوں میں وضو کے بعد پانی ضائع کرتے ہیں، ندیوں میں کچرا پھینکتے ہیں، سڑکوں کو کوڑا دان سمجھتے ہیں اور پھر جب بیمار ہوتے ہیں تو قسمت کو کوستے ہیں۔ درحقیقت یہ ہماری اپنی غفلت کا نتیجہ ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اور اللہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ التوبہ: 108)مگر ہم نے اس آیت کو نظر انداز کر دیا۔ آج اگر ہماری فضا زہریلی ہے، پانی گندا ہے اور بیماریاں عام ہیں تو اس کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی ،فطرت کا انتقام؟
ہم نے زمین، پانی اور فضا کو اتنا آلودہ کر دیا ہے کہ قدرت بھی ہم سے ناراض نظر آتی ہے۔ پانی کی قلت بڑھ رہی ہے، درختوں کی بے دریغ کٹائی سے موسم بدل رہے ہیں،بارشیں بے ترتیب ہو رہی ہیں اور قدرتی آفات ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:’’خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا ہے، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا ہے۔‘‘ (سورۃ الروم: 41)اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ دن دور نہیں جب ہماری ندیاں، دریا، اور زمینیں ہمیں جواب دینا بند کر دیں گی۔
ہماری اجتماعی ذمہ داری : ۔
صفائی اور ماحولیاتی تحفظ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیںبلکہ ہم سب کا فرض ہے۔ ہمیں خود سے آغاز کرنا ہوگا۔ اگر ہر فرد اپنی ذمہ داری سمجھے اور اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھنے کی کوشش کرے تو پورا معاشرہ بدل سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ:’’ندیوں اور جھیلوں میں کچرا اور پلاسٹک پھینکنے کی لعنت سے باز آئیں۔گلیوں اور سڑکوں پر کچرا نہ پھیلائیں، بلکہ کوڑے دان کا استعمال کریں۔پانی کے ضیاع سے گریز کریں اور اس کی قدر کریں۔ درخت لگائیں تاکہ فطرت کا حسن بحال ہو اور ماحولیاتی آلودگی کم ہو۔ دوسروں کو بھی صفائی کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کریں۔‘‘
ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ : ۔
اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی، تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہم نے نہ صرف اپنی زمین کو گندہ کر دیا ہے بلکہ اپنے ضمیر اور ایمان کو بھی داغدار کر دیا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کیسی دنیا اپنے بچوں کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ایک ایسی دنیا جہاں ندیاں زہریلا پانی بہا رہی ہوں، یا ایک ایسی دنیا جہاں شفاف پانی، سرسبز درخت اور صاف فضا ہو؟یہ وقت بیدار ہونے کا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی بے حسی کو ختم کریں، اپنے ضمیر کو زندہ کریں اور عملی اقدامات کے ذریعے اپنے ماحول کو محفوظ بنائیں۔صفائی صرف ماحول کی نہیں، ضمیر کی بھی ضرورت ہے۔یاد رکھیں،ہم واضح طور پر ایسا کرنے کے قابل ہیں لیکن ہم ایسا کرتے ہیں یا نہیں، اس کا دارومدار مکمل طور پر ہم پرہی ہے۔
[email protected]