یو این آئی
غزہ//حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے دوران تمام اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی قیدیوں کو ‘ایک ہی بار’ رہا کرنے کی تجویز پیش کی ہے ، جس کا مقصد مستقل جنگ بندی اور مکمل اسرائیلی انخلا تک پہنچنا ہے ۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق فلسطینی گروپ نے ایک بیان میں غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے بارے میں اپنے وژن کا خاکہ پیش کیا ہے ۔ترجمان حزم قاسم نے کہا کہ ہم دوسرے مرحلے کے لیے تیار ہیں، جس میں قیدیوں کا تبادلہ ایک ہی وقت میں کیا جائے گا، ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کے معیار کے اندر جو مستقل جنگ بندی اور پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلا کا باعث بنے ۔یہ پیشکش امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل سے اغوا کیے گئے قیدیوں کی مرحلہ وار ہفتہ وار رہائی کے خلاف آواز اٹھانے اور غزہ میں باقی رہنے والے افراد کے اہل خانہ کی جانب سے اپنے تمام پیاروں کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد سامنے آئی ہے ۔فلسطینی گروپ نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ وہ باقی 6 زندہ قیدیوں کو ہفتے کے روز رہا کرے گا، جنہیں پہلے مرحلے میں رہا کیا جانا تھا، جب کہ اسرائیل کے وزیر خارجہ گیدون سار کا کہنا ہے کہ معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات اس ہفتے ہوں گے ۔دوسری جانب لبنان میں اسرائیلی فوج کے جنوبی دیہات اور قصبوں سے جزوی طور پر نکلنے کے بعد امدادی کارکنوں نے 23 افراد کی لاشیں برآمد کی ہیں۔ادھر خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق حماس اور اسرائیل نے غزہ سے 6 یرغمالیوں کی رہائی اور 4 قیدیوں کی لاشوں کی واپسی کے معاہدے کا اعلان کیا ہے ، جس میں فلسطینی گروپ کے مطابق 2 نوجوان لڑکوں کی باقیات بھی شامل ہیں۔یرغمالی شیری بیبس اور ان کے بیٹوں ایریل اور کفیر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ اس خبر سے پریشان ہیں، اور انہیں ابھی تک اپنے پیاروں کی ہلاکت کی کوئی ‘سرکاری تصدیق’ نہیں ملی ہے ۔
گزشتہ ماہ سے نافذ العمل غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے تحت 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جانا تھا اور اب تک 1100 سے زائد فلسطینی قیدیوں کے بدلے 19 افراد کو رہا کیا جا چکا ہے ۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ باقی 14 میں سے 8 ہلاک ہو چکے ہیں۔چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارہ سیاسی تجارت میں ‘سودے بازی’ کا ذریعہ نہیں ہے ۔وانگ نے کثیرالجہتی امور پر 15 رکنی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی، کیوں کہ چین ماہ فروری کے لیے اس ادارے کا صدر ہے ۔وانگ نے کہا کہ غزہ کے دو ریاستی حل کو برقرار رکھنا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارہ فلسطینی عوام کا وطن ہیں، نہ کہ سیاسی تجارت میں سودے بازی کا ذریعہ، غزہ پر فلسطینیوں کی حکومت پر عمل کیا جانا چاہیے ۔وانگ نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ توجہ یوکرین پر دی جا رہی ہے ، لیکن غزہ جیسے دیگر معاملات کو ایک طرف نہیں دھکیلا جانا چاہیے ، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آج ہماری دنیا میں صرف یوکرین کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ کے بحران سمیت بہت سے دیگر ہاٹ اسپاٹ ہیں، جن پر بین الاقوامی برادری کی توجہ کی بھی ضرورت ہے ، اور ان مسائل کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے ۔
فلسطینیوں کی جبری بے دخلی نا قابل قیول:خامنہ ای
یو این آئی
تہران//ایرانی سپریم لیڈر آیت اللّٰہ خامنہ ای نے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو مسترد کردیا۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللّٰہ خامنہ ای نے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے امریکی اور اسرائیلی منصوبے کو بے وقوفانہ قرار دیا ہے ۔آیت اللّٰہ خامنہ ای نے تہران میں فلسطینی اسلامی جہاد کے سربراہ سے ملاقات میں کہا کہ غزہ اور فلسطین سے متعلق احمقانہ منصوبے کسی طور پر پورے نہیں ہوں گے ۔واضح رہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے ساتھ ساتھ آبادی کے توازن کو تبدیل کرنے کے لیے یہودی آبادکاری کے منصوبے کو عملی طور پر شروع کر دیا۔الجزیرہ کے مطابق ایک اسرائیلی این جی او کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں تقریباً 1,000 اضافی آبادکار گھروں کی تعمیر کے لیے ٹینڈر جاری کیا ہے ۔دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے پیس ناؤ واچ ڈاگ نے کہا کہ یروشلم کے قریب افرات بستی میں 974 نئے ہاؤسنگ یونٹس کی ترقی کا منصوبہ ہے ۔مغربی کنارے میں آباد کاری کو اسرائیلی سخت گیر اور اسرائیلی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
لیکن فلسطینیوں اور بہت سے بین الاقوامی سطح پر اسے امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔پیس ناؤ نے کہا کہ یہ منصوبہ یروشلم کے جنوب مغرب میں تقریباً 12 کلومیٹر (7.5 میل) کے فاصلے پر واقع افرات بستی کی آبادی کو 40 فیصد تک بڑھا دے گا اور قریبی فلسطینی شہر بیت لحم کی ترقی کو مزید روک دے گا۔گروپ کی سیٹلمنٹ مانیٹرنگ کی قیادت کرنے والے ہیگیٹ آفران نے کہا کہ کنٹریکٹ کے عمل اور اجازت نامے کے اجراء کے بعد تعمیر شروع ہو سکتی ہے جس میں کم از کم ایک سال لگ سکتا ہے ۔اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں مغربی کنارے ، غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ یہ بستیاں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہیں۔