غلام قادر
ڈپریشن ایک پیچیدہ نفسیاتی عارضہ ہے جو دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی صحت پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ ڈپریشن صرف اداسی یا مایوسی تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک طویل المدتی عارضہ ہے جو انسان کے جذبات، سوچنے کے انداز، رویے اور جسمانی تندرستی کو متاثر کرتا ہے۔
ڈپریشن کی وجوہات کو عموماً جینیاتی، حیاتیاتی، نفسیاتی اور ماحولیاتی عوامل میں تقسیم کیا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ عوامل ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اکثر ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے جینیاتی عوامل کی بات کی جائے تو تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ڈپریشن خاندانوں میں چلنے والا عارضہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کے خاندان میں ڈپریشن کی تاریخ موجود ہو تو اس شخص میں ڈپریشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جینیاتی تحقیق کے مطابق کچھ خاص جینز ڈپریشن کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں، مگر یہ ضروری نہیں کہ صرف جینز کی بنیاد پر ہی ڈپریشن پیدا ہو۔ جینیاتی عوامل صرف ایک خطرے کا عنصر ہیں، اصل بیماری کے ظاہر ہونے کے لیے دیگر عوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حیاتیاتی عوامل میں دماغ کی کیمیائی تبدیلیاں، ہارمونی عدم توازن، اور دماغ کے مخصوص حصوں کی کارکردگی میں تبدیلی شامل ہوتی ہے۔ دماغ میں موجود نیورو ٹرانسمیٹرز جیسے سیروٹونن، ڈوپامین، اور نورایپی نیفرین ڈپریشن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب ان نیورو ٹرانسمیٹرز کی سطح میں کمی یا عدم توازن پیدا ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں ڈپریشن جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں، دماغ کے کچھ حصے جیسے کہ ہائپو تھیلمس، ایمیگڈیلا، اور پری فرنٹل کورٹیکس ڈپریشن کے دوران غیر معمولی سرگرمی دکھاتے ہیں، جو اس بیماری کی شدت اور دورانیے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
نفسیاتی عوامل میں فرد کی شخصیت، جذباتی ردعمل اور ماضی کے تجربات شامل ہوتے ہیں۔ کچھ افراد کی شخصیت زیادہ حساس یا کمزور ہوتی ہے، جو انہیں منفی حالات کا زیادہ اثر قبول کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ بچپن میں کسی قسم کا صدمہ، جیسے جسمانی یا جذباتی زیادتی، والدین کی علیحدگی یا کسی قریبی عزیز کی موت، مستقبل میں ڈپریشن کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ اسی طرح مستقل طور پر خود کو کمتر سمجھنا، منفی سوچوں میں گھرے رہنا یا ناکامیوں کو ذاتی ناکامی سمجھنا بھی ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے اندر کی الجھنوں اور پریشانیوں کو چھپا لیتا ہے، جو آہستہ آہستہ ذہنی دباؤ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ڈپریشن کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
ماحولیاتی عوامل بھی ڈپریشن کے پیدا ہونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زندگی کے دباؤ، جیسے کہ مالی مشکلات، بے روزگاری، طلاق یا کسی عزیز کی موت جیسے صدماتی تجربات، ڈپریشن کو جنم دے سکتے ہیں۔ جب انسان ایک طویل عرصے تک ایسے حالات کا سامنا کرتا ہے جن پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، تو وہ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ کیفیت آہستہ آہستہ ڈپریشن میں بدل جاتی ہے۔ جدید معاشرے میں مسابقتی رویہ، سوشل میڈیا پر دوسروں کی کامیابیوں کو دیکھ کر خود کو کمتر محسوس کرنا اور معاشرتی دباؤ بھی ڈپریشن کے خطرے کو بڑھاتے ہیں۔ تنہائی بھی ایک اہم ماحولیاتی عامل ہے۔ جب انسان دوسروں سے کٹ جاتا ہے یا اسے کسی سے بات کرنے اور جذبات کا اظہار کرنے کا موقع نہیں ملتا تو یہ صورتحال بھی ڈپریشن کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔
ڈپریشن کی ایک اور اہم وجہ جسمانی بیماریوں کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ کچھ جسمانی بیماریاں جیسے کہ دائمی درد، دل کے امراض، کینسر، ہائپر تھائیرائڈزم اور نیورولوجیکل عوارض ڈپریشن کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ جب ایک شخص کسی طویل یا شدید بیماری کا شکار ہوتا ہے تو اس کے ذہنی اور جذباتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، جو اکثر ڈپریشن کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ادویات کے اثرات بھی ڈپریشن کا باعث بن سکتے ہیں۔ کچھ مخصوص ادویات جیسے کہ ہائی بلڈ پریشر کی دوا، ہارمونی علاج یا نیند کی گولیاں ذہنی کیمیائی توازن کو متاثر کر کے ڈپریشن کی علامات پیدا کر سکتی ہیں۔
ڈپریشن کے محرکات میں بعض اوقات زندگی کے بڑے واقعات بھی شامل ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر مثبت سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ شادی، نیا گھر خریدنا، یا نئی نوکری کا آغاز۔ ان تبدیلیوں کے ساتھ پیدا ہونے والا دباؤ اور نئی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ذہنی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے جو بعض افراد کے لیے ڈپریشن کی بنیاد بن جاتا ہے۔ کچھ افراد میں یہ دباؤ اندرونی خوف اور ناکامی کے خدشات کو جنم دیتا ہے، جو وقت کے ساتھ ڈپریشن میں بدل جاتا ہے۔
سماجی عوامل بھی ڈپریشن کے محرکات میں شامل ہوتے ہیں۔ جن معاشروں میں عدم مساوات، غربت، نسلی امتیاز، یا صنفی عدم برابری پائی جاتی ہے وہاں ڈپریشن کے کیسز زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔ معاشرتی دباؤ، امتیازی سلوک یا کسی مخصوص گروہ سے تعلق رکھنے کے باعث پیش آنے والی مشکلات بھی ڈپریشن کو فروغ دیتی ہیں۔ جن افراد کو سماجی تعاون حاصل نہیں ہوتا یا وہ خود کو معاشرتی طور پر تنہا محسوس کرتے ہیں، ان میں ڈپریشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ انسان ایک سماجی مخلوق ہے اور جب وہ تنہائی، لاچاری یا معاشرتی تنہائی کا شکار ہوتا ہے تو یہ کیفیت اس کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔
ڈپریشن کی ایک پیچیدہ وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مختلف افراد میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ افراد میں یہ خاموشی سے اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور کسی واضح علامت کے بغیر طویل عرصے تک قائم رہتا ہے، جبکہ کچھ افراد میں اچانک اور شدید علامات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی شدت اور نوعیت کا انحصار فرد کی شخصیت، اس کے ماحولیاتی حالات، اور اس کے جینیاتی پس منظر پر ہوتا ہے۔
ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ڈپریشن کا تعلق صرف ذہنی یا جذباتی مسائل تک محدود نہیں بلکہ یہ جسمانی تبدیلیوں کا بھی باعث بنتا ہے۔ نیند کے مسائل، بھوک میں کمی یا زیادتی، تھکن، جسمانی درد، اور توانائی کی کمی جیسے جسمانی مسائل بھی ڈپریشن کی علامات میں شامل ہوتے ہیں۔ ان علامات کی موجودگی بعض اوقات بیماری کی تشخیص کو مشکل بنا دیتی ہے کیونکہ لوگ اکثر انہیں صرف جسمانی مسائل سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ڈپریشن کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسے صرف ایک بیماری کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ ایک پیچیدہ مسئلے کے طور پر لیں جس میں ذہنی، جسمانی، جذباتی اور سماجی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ اس کی روک تھام اور علاج کے لیے بھی ایک جامع نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے جس میں فرد کی ذہنی صحت، جسمانی صحت، اور سماجی حالات کو مدنظر رکھا جائے۔ علاج میں دوائیں، سائیکوتھراپی، اور زندگی کے طرز عمل میں تبدیلیاں شامل ہو سکتی ہیں، مگر سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہم ڈپریشن کو ایک سنجیدہ مسئلہ سمجھیں اور اس کے شکار افراد کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا رویہ اختیار کریں تاکہ وہ اس بیماری سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو سکیں۔
ڈپریشن کی وجوہات کو سمجھنا صرف اس بیماری کے شکار افراد ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر فرد کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی مدد کر سکے اور وقت پر ان کے مسائل کو پہچان کر ان کے لیے ایک معاون اور مددگار ثابت ہو سکے۔ آخرکار، ذہنی صحت کی بہتری کے لیے سب کا کردار اہم ہوتا ہے اور ایک صحت مند معاشرہ تبھی ممکن ہے جب ہم ذہنی بیماریوں کو سنجیدگی سے لیں اور ان کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔