عظمیٰ مانیٹرنگ ڈیسک
واشنگٹن//2 امریکی سرکاری ایجنسیوں پر تیزی سے قبضہ کرنے کے بعد ایلون مسک نے امریکا کی 22 لاکھ افراد پر مشتمل وفاقی افرادی قوت پر غیر معمولی کنٹرول حاصل کر لیا، اور حکومت کی ڈرامائی تشکیل نو کا آغاز کر دیا ہے ۔ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین شخص اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی 53 سالہ ایلون مسک نے 2 ہفتوں میں واشنگٹن میں اقتدار کا ایک نیا مرکز قائم کیا ہے ، کیونکہ وہ امریکی حکومت کے حجم کو کم کرنے کے لیے ٹرمپ کے اخراجات میں کٹوتی کے اقدام کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ٹیسلا کے سی ای او اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک نے 20 جنوری کو ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد سے تیزی سے کام کیا ہے اور اپنی کمپنیوں کے موجودہ اور سابق ملازمین کی ٹیموں کو اپنے ایجنٹ کے طور پر تعینات کیا ہے ۔ایلون مسک کے اقدامات نے واشنگٹن میں سرکاری ملازمین اور عوامی مظاہروں میں خوف و ہراس کی لہر کو جنم دیا ہے ، اور بعض اوقات ٹرمپ کے اپنے ایجنڈے پر پردہ ڈالنے کی دھمکی دی ہے ۔ان کی یہ کوششیں ٹرمپ کی جانب سے بڑے پیمانے پر حکومت کی تنظیم نو کا حصہ ہیں، جنہوں نے بیوروکریسی کو کم کرنے اور مزید وفاداروں کو تعینات کرنے کے اپنے پہلے قدم میں سیکڑوں سرکاری ملازمین کو برطرف اور سائیڈ لائن کیا ہے ۔یونیورسٹی آف مشی گن میں فورڈ اسکول آف پبلک پالیسی کے پروفیسر ڈان موئنہان کا کہنا ہے کہ امریکیوں میں طاقت کی غیر معمولی مرکزیت ایسے شخص میں دیکھی جا رہی ہے جس کے پاس اعلیٰ سطح کی سیکیورٹی کلیئرنس کا فقدان ہے ، اور وہ سینیٹ کی توثیق کے کسی عمل سے مشروط نہیں ہے ، ایلون مسک کے پاس حکومت کے بنیادی حصے پر بے مثال اور مرکزی کنٹرول ہے ۔یہ پوچھے جانے پر کہ جب ان کی برطرفی کے امکانات کی بات آتی ہے تو وہ کس کے بارے میں زیادہ فکرمند ہیں، جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن کے ایک ملازم نے کہا کہ ‘مسک جو وفاقی املاک اور خدمات کا انتظام سنبھالتے ہیں، کوئی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہے ، ٹرمپ نے مسک کو اس محکمے کا انچارج مقرر کیا ہے جسے دونوں افراد سرکاری کارکردگی کا محکمہ کہتے ہیں۔’اس کے نام کے باوجود، یہ ایک محکمہ نہیں ہے ، ایلون مسک کو سرکاری تنخواہ نہیں ملتی، اور ڈی او جی ای کی تخلیق نے فوری طور پر سرکاری یونینز، واچ ڈاگز اور عوامی مفاد کے گروپوں کی طرف سے مقدمات کا سامنا کیا، ڈی او جی ای کون بناتا ہے یہ واضح نہیں ہے ۔ٹرمپ انتظامیہ نے ڈی او جی ای ملازمین کی فہرست جاری نہیں کی ہے ، نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ انہیں کس طرح تنخواہ دی جا رہی ہے ، کتنے لوگ ہر ایجنسی میں داخل ہوئے ہیں، اور کیا وہ سرکاری ملازم ہیں؟اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس کو جوابدہ ہیں؟ مسک یا ٹرمپ ایگزیکٹو برانچ کے سربراہ کی حیثیت سے ، ایلون مسک اور ان کے ڈی او جی لیفٹیننٹز نے اپنے کمپیوٹر سسٹم کے ساتھ آفس آف پرسنل مینجمنٹ اور جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ، او پی ایم امریکی حکومت کا انسانی وسائل کا شعبہ ہے جو 22 لاکھ سرکاری ملازمین کی نگرانی کرتا ہے ۔وہاں سے گزشتہ ہفتے ای میلز بھیجی گئی ہیں، جن میں وفاقی ملازمین کو ملازمت چھوڑنے کے لیے مالی مراعات کی پیشکش کی گئی ہے ، جی ایس اے زیادہ تر سرکاری معاہدوں کی نگرانی کرتا ہے اور وفاقی املاک کا انتظام کرتا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایلون مسک کے کم از کم چار موجودہ اور سابق ساتھی اس ٹیم کا حصہ ہیں جس نے او پی ایم کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ، اور کچھ سینئر منیجرز کو ان کے اپنے کمپیوٹر سسٹم سے بند کر دیا ہے ۔سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دوران وفاقی بجٹ کی نگرانی کرنے والے طاقتور ادارے آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ کے ایک سینئر عہدیدار مائیکل لنڈن نے کہا کہ مسک کے معاونین کی جانب سے ادائیگی کے نظام تک رسائی انہیں غیر معمولی ممکنہ طاقت فراہم کرتی ہے ۔لنڈن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ منتخب کر سکتے ہیں کہ وفاقی حکومت کونسی ادائیگی کرے گی۔