مختار احمد قریشی
مردوزَن کے لئےازدواجی زندگی میں محبت، احترام، اعتماد اور ایک دوسرے کی ضروریات کو سمجھنا بنیادی عناصر ہیں۔ کسی بھی کامیاب شادی کے لیے میاں بیوی کو اپنی حدود کو پہچاننا اور ان پر قائم رہنا لازمی ہوتا ہے۔جب عورت اور مرد اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور متوازن رویہ اپنائے تو ازدواجی زندگی پُر سکون بن جاتی ہے۔عورت کو مقررہ حدود میں رہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اپنی آزادی یا حقوق سے دستبردار ہو جائے بلکہ ازدواجی تعلق میں ایک ایسا ماحول قائم کرنا ہے جو دونوں فریقین کے لیے خوشگوار ہو۔ ایک باشعور اور خودمختار عورت جانتی ہے کہ کب اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے اور کب نرمی اختیار کرنی ہے، اسی حکمت اور سمجھداری سے ازدواجی زندگی میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، عورت اور مرد دونوں پر کچھ مخصوص حقوق اور فرائض عائد ہوتے ہیں۔ جن کی پاسداری کرکے دونوں کی ازدواجی زندگی میں سکون کا حصول ملتا ہے۔ قرآن واحایث میں شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض کا واضح ذکر کیا گیا ہے، ان کی پیروی کرنے سے ازدواجی زندگی کا احترام برقرار رہتا ہے۔ جب دونوں ایک دوسرے کے جذبات اور خیالات کا احترام کریں، غیر ضروری جھگڑوں سے بچیں تو ہر حال میںسکون رہے گا۔ عورت کا کردار ازدواجی زندگی میں بہت اہم ہوتا ہے، وہ نہ صرف گھر کا نظام چلاتی ہے بلکہ بچوں کی تربیت اور شوہر کے لیے سکون کا ذریعہ بھی ہے۔ وہ نرمی، محبت اور حکمت سے معاملات کو سنبھالیںتو ازدواجی زندگی مستحکم بن جاتی ہے۔ مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ ظلم یا ناانصافی کو برداشت کرے بلکہ اپنے حقوق کی حفاظت کے ساتھ مثبت اور خوشگوار ماحول پیدا کرے۔ مرد کو چاہیے کہ وہ عورت کے جذبات، خواہشات اور ضروریات کو سمجھے اور اس کی عزت کرے۔ پُر سکون ازدواجی زندگی انصاف اور برابری کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اگر مرد اپنی طاقت کا غلط استعمال کرکے عورت کو دبانے کی کوشش کرے تو یہ
رویہ ازدواجی رشتے کو کمزور کر سکتا ہے۔جبکہ عورت اور مرد دونوںکو مقررہ حدود میں رہنے کی ضرورت ہے۔ صرف عورت پر پابندیاں لگانا یا اسے کسی خاص دائرے میں محدود کرنا انصاف نہیں، اصل سکون تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب دونوں ایک دوسرے کے جذبات، ضروریات اور خواہشات کو سمجھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ برابری کا رویہ اپنائیں۔ازدواجی زندگی میں سب سے اہم عنصر محبت اور جذباتی ہم آہنگی ہے۔ اگر شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے جذباتی طور پر قریب ہوں اور ان کے درمیان محبت کا جذبہ ہو تو چھوٹے موٹے اختلافات اور پریشانیاں بھی کوئی بڑی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ عورت کی ذات محض بیوی یا ماں تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک مکمل انسان ہے جس کے خواب، خواہشات اور جذبات بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ مرد کے۔اس لئے عورت کو اس کی حیثیت، جذبات، عزائم اور حقوق کے مطابق عزت دی جائے اور اسے فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔مرد کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف عورت پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائے،جبکہ ازدواجی رشتے میں دونوں کا کردار برابر ہوتا ہے۔ ایک اچھا شوہر وہی ہوتا ہے جو اپنی بیوی کی عزت کرے، اس کی رائے کی قدر کرے اور اس کے آرام و سکون کا خیال رکھے۔ اگر شوہر بیوی کی ضروریات کو نظر انداز کرے، اس پر غیر ضروری پابندیاں لگائے یا اسے جذباتی طور پر تکلیف پہنچائے تو ازدواجی زندگی میں سکون غارت ہوجاتا ہے۔
معاشی استحکام بھی ازدواجی زندگی میں سکون کے لیے ایک لازمی عنصر ہے۔ اگر شوہر بیوی کے ساتھ مل کر مالی معاملات کو احسن طریقے سے چلائے اور کفایت شعاری اپنائے تو گھریلو زندگی میں پریشانیاں کم ہوں گی۔ عورت کو چاہیے کہ وہ شوہر کے مالی معاملات میں اس کا ساتھ دے، فضول خرچی سے بچے اور گھریلو بجٹ کو متوازن رکھنے میں مدد کرے۔
اس جدید دور میں عورت صرف گھر تک محدود نہیں بلکہ وہ تعلیم، ملازمت اور دیگر سماجی معاملات میں بھی برابر کی حصہ دار ہے۔ مقررہ حدود میں رہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت کی ترقی اور خودمختاری پر قدغن لگائی جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ازدواجی زندگی میں سکون لانے کے لیے مثبت رویہ اپنائے۔
اسلام میں ازدواجی زندگی کے حوالے سے نہایت جامع تعلیمات موجود ہیں جو ہمیں سکھاتی ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان محبت، عزت، وفاداری اور اعتماد کی فضا کیسے قائم کی جا سکتی ہے۔کسی بھی رشتے کی بنیاد اعتماد پر ہوتی ہے اور ازدواجی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان اعتماد مضبوط ہوگا تو ان کے درمیان پیدا ہونے والے چھوٹے موٹے مسائل کبھی بھی ان کے رشتے کو کمزور نہیں کر سکیں گے۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر پر اعتماد کرے اور اس کے فیصلوں کو مثبت انداز میں لے، اور شوہر کو بھی بیوی کے جذبات، خواہشات اور رائے پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ازدواجی رشتے میں وقت اور توجہ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اگر شوہر یا بیوی ایک دوسرے کو وقت نہ دیں، اپنی مصروفیات میں گم رہیں اور ایک دوسرے کے جذبات کو نظر انداز کریں تو رشتے میں دوریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
بے شک ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں اور ازدواجی زندگی میں سکون حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی کمزوریوں کو درگزر کریں اور برداشت کا رویہ اپنائیں۔ اگر بیوی ہر چھوٹی بات پر بحث کرے یا شوہر ہر معمولی غلطی پر ناراض ہو جائے تو رشتہ کمزور پڑ سکتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور معاف کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ ایک سمجھدار عورت وہی ہوتی ہے جو نہ صرف شوہر کے ساتھ محبت اور حکمت سے پیش آتی ہے بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی بہترین کردار ادا کرتی ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے ایسا رویہ اپنائیں جس سے وہ محبت، عزت، صبر اور خلوص کے جذبات کو سیکھیں۔کسی بھی رشتے میں اگر خود غرضی شامل ہو جائے تو وہ تعلق دیرپا نہیں رہتا۔ اگر عورت صرف اپنی پسند، اپنی خواہشات، اور اپنی ضروریات کو ترجیح دے اور شوہر کے جذبات کو نظر انداز کرے یا اگر شوہر صرف اپنے فیصلے مسلط کرے اور بیوی کی رائے کو نظر انداز کرے تو یہ رشتہ زیادہ دیر تک خوشگوار نہیں رہ سکتا۔ اگر بیوی اپنے شوہر کے دیے ہوئے رزق اور سہولیات پر خوش اور مطمئن رہے، اس کے ساتھ محبت اور صبر کا رویہ رکھے اور غیر ضروری خواہشات اور تقاضے نہ کرے تو گھر میں سکون اور برکت پیدا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کی قربانیوں اور خدمات کی قدر کرے اور اس کی محنت کو سراہنے والا رویہ اپنائے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، ہر مسئلے کا بہترین حل اللہ سے رجوع کرنا ہے۔ ازدواجی زندگی میں سکون کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی اللہ کے احکامات کی پیروی کریں، نماز قائم کریں اور روزانہ دعا کریں کہ اللہ ان کے رشتے میں محبت، برکت اور سکون پیدا کرے۔ اگر کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے تو صبر اور دعا کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔
ازدواجی زندگی میں سکون حاصل کرنے کے لیے عورت کو مقررہ حدود میں رہنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا۔ یہ رشتہ دو طرفہ ہوتا ہے اور دونوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔
(رابطہ۔8082403001)
[email protected]