محمد امین اللہ
تمام مذاہب اور انسانی برادری میں مختلف طریقوں سے رسم شادی ادا کی جاتی ہے ۔ مگر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ یہود ونصاریٰ اپنی عبادت گاہوں میں بہت محدود تعداد میں مہمانوں کی موجودگی میں سادگی کے ساتھ شادی کی تقریبات ادا کرتے ہیں مگر ایشائی اور افریقی ممالک میں یہ تقریبات ثقافتی اور علاقائی تنوع کی وجہ سے مختلف انداز میں منائی جاتی ہیں جس میں لہو لعب اور بہت ساری بے ہودگیاں شامل ہوتی ہیں۔ مسلم معاشرہ بھی اب اس سے خالی نہیں رہا ۔میری اس تحریر کا موضوع بر صغیر ہند و پاک اور بنگلادیش میں مسلم معاشرے میں نکاح اور شادی میں در آنے والی جاہلی رسم و رواج دن بہ دن فروغ پارہی ہیں ۔ بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں میںغیر مسلموں کے شادی کے رسومات کافی حد تک داخل ہوچکے ہیں، بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ نکاح خوانی کے علاوہ تمام کے تمام رسومات غیر مسلموںکے طریقہ ٔ کار کے مطابق ادا کئے جاتے ہیں۔ نکاح مسنونہ کے دو فرائص اور ایک سنت ، ایجاب و قبول ، حق مہر، سنت دعوت ولیمہ ۔ اس کے علاوہ جہیز کی کوئی حیثیت نہیں ،اگر والدین اپنی خوشی سے اپنی بیٹی کو کچھ دیدے تو ان کی مرضی ۔ہندوستان میں تو مسلمان جہیز کے حوالے سے باضابطگی سے لڑکے کی تعلیم اور نوکری کی نوعیت کے مطابق بڑی رقم اور سامان جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے غریب والدین یا تو مقروض ہو جاتے ہیں یا پھر بیٹیاں گھروں میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں، اس کے علاوہ جدیدیت کے اثرات کی وجہ سے غلط راستوں پر چل پڑتی ہیں ۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ شادی کو آسان بناؤ، وہی شادی اللہ اوراُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے جو شریعت محمدیؐ کے مطابق کی جائے ۔ مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج تینوں ملکوں میں یہ شادیاں نکاح کے تقریباًت کے بعد لہو و لعب سے پُر ہوتی ہیں ۔ بارات میں سیکڑوں لوگوں کی شراکت ،ڈھول باجے اور خسروں کی بے حیا ناچ گانے اور زرق برق لباس میں بے پردہ خواتین کی موجودگی میں شادی ہال میں ہالی وڈ کی طرز پر فلم بندی ذو معنی تیز موسیقی کے ساتھ گانے ،کان کو پھاڑ ڈالنے والی آواز ،اس پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ساتھ پختہ عمر کے لوگوں کا رقص ،رقصِ ابلیس کے سوا کچھ نہیں ۔ غیرت اور عزت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہونے والی دلہن کو پردے میں رخصت کی جائے، اس کی جگہ محرم اور غیر محرم کی موجودگی میں ناپسندیدہ انداز میں فلم بندی کرنا شیطان کو خوش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ زیادہ تر شادی ہالوں میں کھانے کی میزوں پر مخلوط نشستیں ہوتی ہیں جہاں نہایت بے شرمی کے ساتھ عورتیں غیر مردوں کے سامنے بے حجاب دھڑلے سے کھاتی ہیں ۔ اِکا دُکا اگر کوئی خواتین با حجاب ہوتی ہے تو اس کی حالت دیدنی ہوتی ہے، جیسے کوؤں کی محفل میں کوئی بگلا آ گیا ہو ۔ اچھے خاصے مذہبی لوگ بھی مبرا نہیں ہو پاتے ،ذکر کرو تو خاتون خانہ کے سامنے بے بسی کا اظہار کرتے ہیں ۔ قبائلی علاقوں میں تو بارات اور نکاح کے بعد جدید اسلحہ سے خوشی کے نام پر بے مہار فائرنگ کی جاتی ہے، ایسے واقعات دیکھنے میں آئے کہ کئی اموات ہو جاتی ہیں اور خوشی کا گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ شان و شوکت اور دکھاوے کے لئے انواع اقسام کے مختلف کھانے لگائے جاتے ہیں جو بعد میں ڈسٹ بن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ ان نمود و نمائش والی شادیوں میں جتنا بے جا خرچ ہوتا ہے، اگر یہ اشخاص سادگی سے کام لیں تو درجنوں غریب بچیوں کی شادیاں کروائی جا سکتی ہیں ۔ میری عمر چونکہ ستر سال سے زیادہ ہے تو کچھ بچپنے اور جوانی کی شادی کی تقریبات کے احوال اب بھی ذہن میں موجود ہے جس کا تذکرہ خوشگوار ہوگا ۔ جب کبھی دور دراز گاؤں میں بارات میں جانے کا اتفاق ہوا تو ہم نے دیکھا کہ بارات سر شام پہنچ گئی۔ فوراً دلہن کے گھر والے ناشتہ اور شربت سے تواضع کئے۔ مغرب کے بعد سادگی سے نکاح کی تقریب ہوئی اور دلہا دلہن کی جانب سے سہرا کے دعائیہ گیت گائے گئے ۔ کھانا تناول کرنے کے بعد دلہا دلہن کی جانب سے ادبی محفل کا اہتمام ہوتا اور دونوں جانب سے شعر و شاعری کے مقابلے کے ساتھ ساتھ سوال و جواب کے مقابلے ہوتے ۔ رات گئے تک یہ محفل جمی رہتی ۔ رات کے آخری پہر صبح سے ذرا پہلے دُلہے کو دلہن کے گھر والے ساس اور دیگر خواتین سے تعارف اور تحفے تحائف دینے کے لئے لے جایا جاتا تھا ۔ پھر بعد میں صبح ناشتے کے بعد اگر سفر لمبا ہوتا تو دلہن والے باراتیوں کے لئے دن کا کھانا بھی پارسل کر دیتے، دلہن کو ڈولی میں کہار لے کر چلتے جو اکثر دوڑتے ہوئے دلکی چال چلتے ڈولی کے ساتھ دلہن کا بھائی اور دلہا کا کوئی رشتے دار کہاروں کے ساتھ ساتھ چلتے تھے ۔
اسلام جہاں جہاں گیا، وہاں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ۔ تمام جاہلانہ رسم و رواج کو ختم کر دیا مگر بر صغیر ہند و پاک اور بنگلادیش میں میں یہاں کے رسم ورواج کو اپنا لیا۔ ایک عجیب بات جو عام طور پر دیکھنے میں آتی ہے کہ غیر مسلموں کی طرح مایو ، مہدی اور بارات میں تقریبات ادا کئے جاتے ہیں جو قرآن وسنت کی تعلیمات کے بر خلاف ہوتے ہیں مگر جب بیٹی کو رخصت کرتے ہیں تو اس کے سر پر قرآن مجید رکھ کر یعنی قرآن مجید کے سائے میں رخصت کرتے ہیں ۔ گویا شیطان بھی خوش اور رحمان بھی خوش ۔ پہلے میاں بیوی مرنے کے بعد جُدا ہوتے تھے، زندگی بھر کا بندھن ہوتا تھا مگر آج کل تو طلاق و خلع عام بات ہو گئے ہیں ۔ طلاق و خلع جائز ہونے کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نا پسند فرمایا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ پرنالہ اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے ، مچھلی سر کے طرف سے سڑتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں جتنی بھی خرافات فیشن سے لے کر تقریبات میں لہو لعب تک دولت مند اشرافیہ شروع کرتی ہے اور اس کو فلموں کے ذریعے عام کیا جاتا ہے اور غریبوں کی اکثریت نقالی کرنے میں دیوالیہ ہو جاتی ہے ۔ آج سب سے زیادہ فیملی کورٹ میں طلاق و خلع اور نان و نفقہ کے مقدمات درج ہیں ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شیطانی رسم و رواج کے ساتھ ادا کی گئی شادیوں میں اللہ کی برکت شامل حال نہیں ہوتی ۔یہ تو بڑی مشہور روایت ہے کہ شیطان اپنے اس شاگرد کو انعام سے نوازتا ہے جو میاں بیوی میں علیحدگی کروا کر اپنی کارکردگی پیش کرتا ہے ۔ ایک اور وجہ بے برکتی کی یہ ہے کہ شادی کے چند مہینوں بعد ہی بیٹا ماں باپ کو چھوڑ کر علیحدہ ہو جاتا ہے ۔پرندوں کے پر نکلے والدین اکیلا رہ گئے کے مصداق جدیدیت کے شیطانی عمل نے گھروں کا سکون اور اطمینان برباد کر دیا ہے ۔