اقبال احمد
بجٹ کسی بھی ملک کی معیشت کا ایک بنیادی ستون ہوتا ہے، جو نہ صرف مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ قومی ترقی کے لیے منصوبہ بندی اور وسائل کی تقسیم کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ بجٹ دراصل حکومت کی سالانہ مالیاتی حکمت عملی ہوتی ہے، جس میں آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز مختص کئے جاتے ہیں۔ بجٹ 2025-26 کو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے پیش کیا، جس میں معیشت کی ترقی، سرمایہ کاری، زراعت، برآمدات، توانائی، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں پر زور دیا گیا ہے۔ حکومت نے بجٹ کو ’’وِکست بھارت‘‘ (ترقی یافتہ بھارت) کے وژن کے تحت تیار کیا ہے اور چار بنیادی انجنز،زراعت، ایم ایس ایم ای، سرمایہ کاری اور برآمدات کو معیشت کی ترقی کے محرکات کے طور پر پیش کیا ہے۔ تاہم بجٹ میں کئی خامیاں بھی موجود ہیں، جن پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ مستقبل کی پالیسی سازی مزید مؤثر ہو سکے۔
یہ بجٹ متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے کچھ ٹیکس ریلیف ضرور فراہم کرتا ہے، جیسے کہ انکم ٹیکس کی حد 12 لاکھ روپے تک بڑھائی گئی ہے، لیکن براہ راست نقد امداد یا سبسڈیز کی کمی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر مہنگائی کی بلند شرح کے پیش نظرکم آمدنی والے افراد کو فوری ریلیف دینے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ روزمرہ اشیاء پر سبسڈی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے عام آدمی پر مہنگائی کا دباؤ برقرار رہے گا۔ ’’پردھان منتری غریب کلیان یوجنا‘‘جیسے پروگراموں کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریب عوام کو براہ راست مالی مدد مل سکے۔
حکومت نے ’’پردھان منتری دھن۔دھانیہ کرشی یوجنا‘‘ کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد زرعی پیداوار میں اضافہ، فصلوں کی تنوع اور ذخیرہ اندوزی کی سہولیات کو بہتر بنانا ہے۔ تاہم کسانوں کو مارکیٹ تک براہ راست رسائی دینے اور جدید زرعی ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے پر کم توجہ دی گئی ہے۔ دیہی علاقوں میں کولڈ اسٹوریج اور زرعی منڈیوں کے قیام کے لئے بجٹ میں زیادہ فنڈز مختص نہیں کئے گئے۔ کسانوں کے لیے آسان شرائط پر قرضے اور زرعی مشینری کی سبسڈی میں اضافہ کرنے کی ضرورت تھی تاکہ زراعت کو مزید مستحکم بنایا جا سکے۔
ایم ایس ایم ایز معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے لیے قرضوں کی ضمانت میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن براہ راست سبسڈی یا گرانٹس نہیں دی گئیں جو کہ ان کاروباروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ چھوٹے کاروباروں کے لئے بلا سود یا کم سود پر قرضوں کی اسکیمیں متعارف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو مزید فروغ دے سکیں۔ ’’میک ان انڈیا‘‘ پروگرام کے تحت چھوٹے کاروباروں کو مزید مراعات فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
تعلیم اور صحت ایسے شعبے ہیں جو انسانی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، مگر اس بجٹ میں ان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ نئی طبی نشستوں اور ’’سکشام آنگن واڑی اور پوشن 2.0‘‘جیسے پروگراموں کا اعلان کیا گیا ہے، مگر صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت تھی۔ دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز کے لئے زیادہ بجٹ مختص کیا جانا چاہیے تھا تاکہ عوام کو بہتر طبی سہولیات میسر آ سکیں۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں جدید تعلیمی ٹیکنالوجیز کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے بھی مزید اقدامات کی ضرورت تھی۔اگرچہ انفراسٹرکچر ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے، مگر کوئی مخصوص قومی سطح کی روزگار اسکیم متعارف نہیں کرائی گئی۔ شہروں میں ’’قومی روزگار گارنٹی اسکیم‘‘ متعارف کرانے کی ضرورت تھی، جیسا کہ دیہی علاقوں میں ’’مہاتما گاندھی نریگا‘‘ موجود ہے۔ اسٹارٹ اپس اور نئی صنعتوں کے لیے خصوصی مراعات دی جانی چاہیے تھیں تاکہ ملازمت کے مواقع بڑھ سکیں اور بے روزگاری میں کمی آئے۔
ٹیکس اصلاحات کے باوجود کچھ طبقات جیسے کہ تنخواہ دار افراد اور چھوٹے کاروباریوں پر ٹیکس کا بوجھ برقرار ہے۔ ٹیکس سلیب میں مزید آسانی لائی جانی چاہیے تاکہ زیادہ افراد ٹیکس نیٹ میں آئیں اور حکومت کی آمدنی بڑھے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے مزید ٹیکس چھوٹ فراہم کی جانی چاہیے تاکہ ان کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو اور معیشت میں استحکام آئے۔
بجٹ میں جوہری توانائی کے فروغ کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن قابل تجدید توانائی جیسے کہ شمسی اور ہوا سے بجلی کے منصوبوں پر زیادہ زور نہیں دیا گیا۔ شمسی توانائی کے منصوبوں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت تھی، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں بجلی کی قلت زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ ’’نیشنل سولر مشن‘‘ کے بجٹ میں اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ ملے اور ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے۔
’’بھارت ٹریڈ نیٹ‘‘ جیسے اقدامات متعارف کرائے گئے ہیں، مگر برآمدات کے فروغ کے لیے مزید براہ راست مراعات کی ضرورت ہے۔ ایکسپورٹ زونز کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے تھا اور برآمد کنندگان کے لیے آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جانے چاہیے تھے تاکہ برآمدات میں اضافہ ممکن ہو سکے۔ ’’میک ان انڈیا‘‘ کے تحت بھارتی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ میں فروغ دینے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت تھی تاکہ ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔
یہ بجٹ کئی مثبت اقدامات پر مشتمل ہے، جیسے کہ زرعی ترقی، چھوٹے کاروباروں کے لیے مالیاتی سہولت اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری۔ تاہم اس میں کچھ بنیادی خامیاں بھی موجود ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کے لیے مزید سماجی تحفظ، تعلیم اور صحت میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے والی پالیسیاں نہایت اہم ہیں۔ اگر حکومت ان اصلاحات کو بجٹ میں شامل کرتی ہے تو نہ صرف معیشت کو استحکام ملے گا بلکہ بھارت ’’وکست بھارت‘‘ کے وژن کی طرف تیزی سے بڑھ سکے گا۔