Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

وحشی سعید کی فکشن نگاری پر ایک نظر تجزیہ

Towseef
Last updated: January 31, 2025 10:27 pm
Towseef
Share
20 Min Read
SHARE

ریحانہ شجر ۔ سرینگر

جب فنکش نگار کے پاس قوت احساس(feeling power)شدید ہو،قوت تخلیہ (power of imagination)بُلند پروازہو، قوت امتیازی(power of differenciation) چیزوں میں فرق کرنے اور پرکھنے کی قوت ہو،قوت گویائی( power of expression)ہو، اور پھر بیان کرنے کی قوت اعلی درجے کی ہو، تو یہ بات طے ہے کہ اس فکشن نگار کے قلم سے فن پارے ہی جنم لیتے ہیں۔ان اوصاف اور خوبیوں سے سرفراز ہماری وادی کی مایہ ناز شخصیت اور کہن مشق فکشن نگار جناب وحشی سعید صاحب ہیںجن کی فکشن نگاری کے بارے میں کئی قدآور قلمکار حضرات نے اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں۔ ان کی فکشن نگاری کے بارے میں چند لفظ تحریر کرنے کا موقع مجھے بھی میسر آیا ہے۔یوں تو وحشی سعید متعدد تصانیف کے خالق ہیںاور حقیقی معنوں میں ان کے وسیع ادبی سفر کا احاطہ کرنا بیک وقت ممکن نہیں ہےکیونکہ ان کی تخلیقات میںافسانوی مجموعے، جیسے ’’سڑک جا رہی ہے‘‘ ، ’’کنوارے الفاظ کا جزیرہ‘‘، ’’خواب حقیقت، ماضی اور حال‘‘ ( تین جلد)،’’ آسمان میری مٹھی میں‘‘،’’ ارسطو کی واپسی‘‘،’’ آخر کب تک‘‘ناول اور ناولٹ، پتھر پتھر آئینہ، ایک موسم کا خط، خوف اور محبت، عجب زندگی۔ غضب موت، جائز ناجائز، فطرت۔محبت – ندامت، وحشت محبت،اعزاز ، دو کتابیں وحشی سعید صاحب پر لکھی گئی ہیںاور چار طلباء نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا ہے۔طبع زاد افسانے لکھنے والوں میں وحشی سعید صاحب ایک منفرد انداز کے مالک ہیں،جو انہیں آج کے افسانہ نگاروں میں منفرد اور ممتاز کرتی ہے۔کسی بھی فکشن تحریر میں افسانہ نگار صرف فرضی کہانی بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے اردگرد ہوئے معاشرے میں نمو پزیر واقعات، حالات کی عکس بندی کرتا ہے۔

وحشی سعید صاحب نے بھی افسانوں میں معاشرے سے جڑے مسائل کو اپنے منفرد انداز میں عکس بند کیا ہے۔ان کے فکشن میں ایک قصہ گو کی مانند تفصیلات کی بھرمار ہے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی وہ نظر انداز نہیں کرتےاور معمولی باتوں کی وضاحت میں بہت کچھ لکھ دیتے ہیں۔ان کی اس تفصیلی روش قلم سے ان کے افسانوں کے کردار اور ان کی سیرت سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔وحشی سعید اپنے فکشن لکھنے کے بارے میں کہتے ہیں:’’میں نے اردو لکھنے کا طرز اور طریقہ ‘ابن صفی کی ان جاسوسی ناولوں سے سیکھا جن کو میں نے بچپن میں پڑھا تھا ، کیونکہ ان کی ناولوں میں نیا پن اور نئی کہانی ہوتی تھی ، ان کے لکھنے کا انداز میرے نزدیک دیگر قلمکاروں سے عمدہ تھاجس سے میں بڑا متاثر ہوا۔جہاں تک رول ماڈل کا تعلق ہے وہ طالب علمی کے زمانے سے اب تک سعادت حسن منٹو ہی رہا ہے اور اب بھی میں ان ہی کی تحریریں پڑھتا ہوں ، کیونکہ منٹو نے جس انداز اور طریقے سے اپنے افسانوں میں زندگی کو پیش کیا ہے ویسا اب تک کسی بھی فکشن نگار نے پیش نہیں کیا ہے ۔‘‘

وحشی سعید صاحب کے افسانوں کے پلاٹ فطری ہونے کے ساتھ دلکش بھی ہوتے ہیں،ان کے افسانوں کی کائنات موضوعات کے لحاظ سے بڑی وسیع اور متنوع ہے،ان کے افسانے پر روزمرہ زندگی کا کوئی پہلو ایک خوبصورت رنگ کی طرح چھایا ہوا ہوتا ہے۔اپنی مٹی، ماحول اور ثقافت کے قریب رہ کے انہوں نے ہر نوعیت کے رشتے ، جذبے کی عکاسی اپنے الگ انداز اور اسلوب میں بیان کی ہے، اپنے تخیلی کرداروں کو لفظوں کے سانچے میں ڈالنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے،سیرت نگاری ان کے افسانوں میں نمایاں نظر آنے والی شے ہے ۔ان کے یہاں درد، کسک اور تڑپ ہر جگہ نظر آتی ہے،یہی اختصاص ان کے افسانے کو فطری بنا دیتا ہے۔

ان کا ایک افسانہ ’’یہ کیسے رشتے‘‘ جس میں وحشی سعید صاحب نے خونی رشتوں سے ملنے والی اذیت کو سادہ زبان میں پیش کرکے قاری تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔کہانی کے والدین کردار کملیش اور نیلما جو اپنی جمع پونجی اولاد اکھلیشکی زندگی بنانے کےلئے صرف کرتے ہیں،آخرکار جب بیٹا اس بلند مقام پر پہنچا جس کی چاہ میں والدین نے اپنی پوری زندگی وقف کردی ،اسی بیٹے کے پاس بیمار ماں کے ساتھ بات کرنے کی مہلت نہیں ہوتی ہے۔اس کے برعکس مرکزی کردار کملیش کو کتے سے کس قدر نفرت ہوتی ہے،کیونکہ بچپن میں کسی پاگل کتے نے کملیش کو کاٹا ہوتا ہے۔کملیش کی جانوروں کے تعین نفرت وقت گزرنے کے ساتھ ہمدردی اور محبت میں بدل جاتی ہے اور اب کملیش روز کتے کے لیے بسکٹ لاتا ہے، اچانک وہی کتا اُسے جدا ہوکر روتے روتے اپنی جان دیتا ہے،یہاں یہ کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے۔‘‘

یہ بات واضح ہے کہ افسانہ بظاہر مصنف کی قیاس آرائی یا خیال پر مبنی تحریر ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرداروں کے نام اور محل وقوع کے علاوہ کوئی بھی چیز فرضی نہیں ہوتی۔ان حالات میں فکشن نگار کو کبھی کبھی اشاروں، کنایوں اور علامتوں کے ذریعے قاری تک رسائی حاصل کرنے کی مجبوری پیش آتی ہے۔کیونکہ کئی سماجی، سیاسی ادو دیگر مسائل کبھی کبھار حساس طرز تحریر طلب کرتے ہیں۔وحشی صاحب اشاروں اور کنایوں کا طرزعمل اپنانے کا ہنر بھی جانتے ہیں اور حوصلہ بھی رکھتے ہیں جس کی مثال ان ایک افسانہ ’’انوکھے شہر کا سفید گھوڑا‘‘ قابل ذکر ہے،اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’اس رات میں سو نہ سکا،میرے کانوں میں بار بار وہ سفید گھوڑا ہنکارتا ہوا کہہ رہا تھا !مجھے ڈھونڈو ، مجھے ڈھونڈو، مجھے ڈھونڈو…. میں کہاں ہوں؟دوسرے دن علی الصبح میں اس گھوڑے کو ڈھونڈتا ہوا اس عمارت کے سامنے کھڑا ہو گیا جہاں سفید گھوڑے کا ٹھکانہ تھا۔کل جو سفید گھوڑا غائب تھا آج وہ گھوڑا مجھے اُس عمارت کے سامنے پھر ملا،سفید گھوڑا کب غائب ہوا تھا، کیسے غائب ہوا تھا اور کس نے اسے غائب کیا تھا، یہ ایک معمہ بنا ہوا تھا،چوک میں اسٹیج لگایا گیا ،دراز قد شخص اسٹیج پر پھر ایک بار نظر آنے لگا ۔اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اسٹیج پر آخری بار نمودار ہو رہا ہے ۔وہ تقریر کرتا رہا ……..’’میں نے عجائب گھر سے دو نمونے لائے…… نادر و نایاب نمونے….. یہ نمونے عجائب گھر سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔میں نے ان کی منت سماجت کی اور میں ان سے کہنے لگا ، میرے لوگوں کو آپ ضرورت ہے۔‘‘لوگوں کا جم غفیر اچھل اچھل کر کہتا رہا……آپ کا قول ہمارے لئے فرمان ہے۔‘‘لوگوں کا جم غفیر جب امیرا کدل سے گزر رہا تھا اور نعروں کی گونج میں اچھل کود سے ان میں سے چند افراد جہلم میں گر گئے اور بہہ گئے۔اس دن کے بعد امیرا کدل کے دونوں اطراف سے لوہے کی مضبوط جالی چڑھائی گئی تاکہ کوئی چاہتے ہوئے بھی جہلم کے پانی میں نہ بہہ سکے۔

دراز قد جب سو گیا اور اٹھنے کا نام نہ لیا ۔ہزاروں لوگ اس سوئے ہوئے شخص کے اردگرد گھومتے رہے اور پھر چلے گئے ۔ان میں ہر ایک چاہتا تھا کہ دراز قد نیند سے جاگے اور ایک بار پھر ان سے مخاطب ہوجائے۔لیکن ایسا نہیں ہوا،پھولوں سے سجی ہوئی گاڑی میں اس دراز قد شخص کو رکھا گیا اور سارے شہر میں اسکی میت کو پھرایا گیا،جب میت سفید گھوڑے کے سامنے سے گزری تو لوگوں نے سفید گھوڑے کی آنکھوں میں چند آنسو بھی دیکھے۔ایک وہ دور ختم ہو گیا جب فرد کی اہمیت قوم سے بڑی ہوا کرتی تھی۔۔۔‘‘

افسانوں اور ناول کے ساتھ ساتھ انہوں نے ناولٹ جیسی صنف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ۲۰۱۵ میں پانچ ناولٹوں پر مشتمل ان کے ناولٹوں کا مجموعہ ’’ماضی اور حال‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔’’ایک موسم کا خط ‘‘اور’’پتھر پتھر آئینہ‘‘ نام سے اور دو ناولٹ منصّئہ شہود پر آچکے ہیں۔ایک اور ناولٹ ’’عجب زندگی۔غضب موت‘‘ وحشی سعید صاحب کی عمدہ تحریر ہے۔سادہ اور سلیس زبان، بیانیہ اسلوب اپنا کر ایک رومانوی کہانی لکھی ہےجو چار اہم کردار ، جبار، گلابو، یوسف اور شہری لڑکی نسرین پر مبنی ہے۔مرکزی کردار جبار قید میں اپنی زندگی کے آخری ایام کاٹ رہا ہوتا ہے، یہی سے کہانی کی شروعات ہوتی ہے۔یہاں مصنف نے فلیش بیک تیکنیک کےذریعے جبار کو ماضی میں غوطہ زن کرکے کہانی کو آگے بڑھایا ہے۔گلابو کی شادی یوسف کے ساتھ ہونا،اس کے بعد شہری لڑکی کا آنا اور پھریوسف کا گلابو کو طلاق دینا، اس طرح قتل کی واردات کا ہونا،اسی کہانی کو مصنف نے نہایت منفرد انداز میں ، دلچسپ منظر نگاری اور خوبصورت ڈائیلاگ ڈیلیوری کے ساتھ پیش کیا ہے۔

۱۸ جنوری ۲۰۲۵ کو نگینہ انٹرنیشنل کی رسم رونمائی کی تقریب منعقد کی گئی ۔اس موقعے پر وحشی سعید کے افسانوں کا کشمیری ترجمہ، زیر عنوان ’’سُیے دودچُھم جگرس‘‘ مجموعے کی شکل میں منّصئہ شہود پر آگیا۔افسانوں کا ترجمہ وادی کشمیر کے کہنہ مشق ادیب اور قلمکار جناب محمد یوسف شاہین صاحب نے اپنے نرالے انداز میں کیا ہے،افسانوں کی ہیئت اور مفہوم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ترجمہ کار نے مہارت سے وحشی سعید صاحب کے افسانوں کا ترجمہ کیا ہے۔مجموعہ سترہ افسانوں پر مشتمل ہے۔موضوع کے لحاظ سے مجموعے میں شامل اکثر افسانے ہمارے اردگرد کے ان حالات اور واقعات سے مطابقت رکھتے ہیں، جن پر ہم توجہ نہیں دیتے ہیں یا پھر نظر انداز کرکے آگے نکل جاتے ہیں۔جیسے’’یتیم تہ حرام کوچھ‘‘، ’’سُیے دود چھم جگرس‘‘، ’’بیچھ کٹھ‘‘ وغیرہ قابل داد و تحسین افسانے ہیں۔

درد و الم سے بھرپور ’’ سُیے دود چھم جگرس‘‘ معاشرے میں رہنے والے اس فرد کی کہانی ہے،جس کا نام صمد ہے اور جو پیشے سے ’’واتل ‘‘یعنی خاکروب ہے۔لوگ اس کو صمد واتل کہہ کے پکارتے ہیں ۔بڑی منعتوں اور نذر و نیاز کے بعد اس کو اولاد کا سُکھ نصیب ہوتا ہے،صمد واتل اپنے بیٹے کو افسر بنانا چاہتا ہے،لیکن بیٹا پڑھ نہیں پاتا اور باپ کے ساتھ گلی کوچے صاحب کرتا ہے۔ ایک دن صفائی کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔صمد کی زبان سے یہی الفاظ نکل گئے،’’میں اس کو وہ نہیں بنا پایا جس کی اسے تمنا تھی ، اس لئے خدا نے اس کو واپس اپنے پاس بلا لیا۔‘‘

ایک اور افسانہ ’’بیچھ کٹھ‘‘ ہمارے معاشرے کا گھناؤنا سچ ہے۔گاؤں کے ایک بھولے بھالے لڑکے اقبال کی کہانی ہے جو شہر کی الجھن بھری زندگی سے بے خبر ہوتا ہے،اپنے روم میٹ جمال علی کو اپنا دوست مان لیتا ہے۔جمال علی اقبال سے اپنے چھوٹے موٹے کام کرواتا ہے،بدلے میں کبھی کبھار کچھ پیسے بھی دیتا ہے ۔ایک دن جمال علی اقبال کو کسی کام سے گھر بھیجتا ہے ،وہاں جمال علی کی جوان بیوہ بہن نجمہ کو اقبال کے لچیلے بدن پر نظر پڑتی ہے،وہ اقبال کو مٹھائی خریدنے کےلئے پیسے دے کر دوسرے دن آنے کو کہتی ہے۔اقبال وعدے کے مطابق دوسرے روز مٹھائی لے کر آتا ہے،جمال کی بہن اقبال کو بازو پکڑ کر اپنے پاس بیٹھنے پر زور دیتی ہے،اتنے میں جمال علی گھر آتا ہے اور اقبال کو اپنی غیر حاضری میں دیکھ کر بہن پر برستا ہے اور دوبارہ اقبال کو گھر بلانے سے منع کرتا ہے۔

بی اے کا رزلٹ آنے کے بعد اقبال گھر جانے کےلیے تیار ہوتا ہے،اسی وقت چٹھی کے ذریعے اس کے باپ کے علیل ہونے کی خبر ملتی ہے وہ جب تک گھر پہنچتا ہے ،اس کے باپ کو گائوں والوں نے دفن بھی کیا ہوتا ہے۔مادری شفقت سے پہلے ہی محروم ہوتا ہے،اب وہ نوکری ڈھونڈنے لگتا ہے جو کہیں نہیں مل پاتی اور اب کام کی تلاش میں وہ پھر شہر کا رخ کرتا ہے۔یہاں بھی در در کی ٹھوکریں کھا کر فاقوں کی نوبت آتی ہے،تب اقبال کو اپنے دوست اور روم میٹ جمال علی کا خیال آتا ہے اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اس کی مدد ضرور کریگا،جمال علی کے گھر پہنچ کر جمال کی بہن نجمہ سامنے آتی ہے جو اقبال کو دیکھ کر خوش ہوجاتی ہے۔اقبال اپنی بےروزگاری کی کہانی اس سے کہہ دیتا ہے۔ اقبال کو نجمہ سے پتہ چلتا ہے کہ جمال علی لندن جا چکا ہےلیکن جمال کی بہن اقبال کو بھوک سے نڈھال دیکھ کر اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلاتی ہے،اس کے بعد اقبال کو غلط تعلقات بنانے پر مجبور کرتی ہے۔پچاس روپے دے کر اس سے کہتی ہے اگر روز پچاس روپے کمانا چاہتے ہو تو روز آنا پڑے گااور اس طرح سیدھے سادے اقبال کا استحصال شروع ہوجاتا ہے۔مہینوں بعد جب جمال علی گھر آگیا تو اقبال کو دیکھ کر آگ بگولا ہوکر کہتا ہے ،’’ نجمہ یہ کتا یہاں کیا کرتا ہے،تین سال پہلے اس بیچھ کٹھ کو یہاں آنے سے منع کیا تھا‘‘میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا ۔جمال علی کی مکار بہن نجمہ کا حیران کن جواب کہانی کی جان ہے۔’’ارے بھائی جان ! میں کیا کرتی ،پچھلے چھ ماہ سے یہاں اس کا آنا جانا ہےبھاڑ میں جائے میری بلا سے۔یہ تو دوست آپ کا ہےجب سے آیا ہے آپ ہی کے بارے میں پوچھتا کہ جمال بھائی سفارش کرکے مجھے کہیں کام پر لگا دے۔ میں بے روزگار ہوں،میری مشکل بھی آسان ہوجائے،روز آکر اپنی بےروزگاری کا رونا روتا ہے،مجبور اور بے روزگار جان کر دس بیس روپے تمہاری جان کا صدقہ میں اس کو دیتی ہوں ، ورنہ مجھے اس سے کیا لینا دینا۔‘‘اقبال پر جمال علی اور اس کی بہن نجمہ کی گفتگو سن کر سکتہ طاری ہوجاتا ہےاور اسی بےقراری میں وہ ایک سڑک حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔‘‘

وحشی سعید صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ ان کے چنندہ افسانوں کا انگریزی ترجمہ ہو، تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک ان کے خیالات پہنچے،ان کی ان تھک کاوشیں آخرکار رنگ لائیں اور ان کا یہ خواب “How That Abode Would Beکے عنوان سے حقیقت بن گیا۔وادی کے نامور مترجم جناب مشتاق برق صاحب نے اپنی منفرد انداز میں ترجمہ کرکے وحشی سعید صاحب کے الفاظ کو مزید نکھارنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔اس ضمن میں ڈاکٹر ظہیر انصاری، ممبئی کے تاثرات پر مبنی تحریر سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’ایک بات یہاں عرض کردوں کہ ’آگ کا دریا‘ کا ترجمہ قرت العین حیدر نے خود کیا تھا۔یہ سبھی جانتے ہیں کہ وہ انگریزی کی اعلیٰ درجے کی صحافی تھیں لیکن ترجمے کو وہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی جو ’’آگ کا دریا ‘‘ کو ہوئی تھی ۔اسی طرح ’’کئی چاند تھے سر آسمان ‘‘کا ترجمہ خود شمس الرحمن فاروقی نے کیا ہے ۔یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ وہ پہلے انگریزی کے پروفیسر تھے لیکن یہاں بھی وہی ہوا جیسا ’’آگ کا دریا ‘‘ کے ترجمے کے ساتھ ہوا،یہاں مجھے نہیں لگتا کہ وحشی سعید کے ترجمے کے ساتھ ایسا ہوگا ،وہ اسلئے کہ مشتاق برق جیسا مترجم وحشی سعید کو نصیب ہے۔ایسا نہیں کہ وحشی سعید انگریزی نہیں جانتے لیکن ترجمہ ایک فن ہے اور وہ اس سے واقف ہیں کہ ایک فن کار کو پوری آزادی دی جائے جب ہی اس کا فن نکھر کر باہر آتا ہے ۔‘‘

وحشی سعید کی فکشن نگاری اسقدر جداگانہ، مختلف اور متاثر کن ہے کہ نہ صرف وادی کے بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں کے طلباء نے بھی ان کے افسانوں پر پی ایچ ڈی کیا ہے۔محترمہ روضیہ تبسم ایسی پہلی طالبہ ہے جس نے وحشی سعید کے افسانوی مجموعے ’’سڑک جاری ہے‘‘ پر جموں یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے۔اس کے علاوہ یونیورسٹی آف حیدرآباد میں بھی ان کے افسانوں پر تحقیق ہو چکا ہے۔مسٹر جگموہن نامی پنجاب کے ایک طالب علم نے بھی وحشی سعید صاحب کے فکشن پر تحقیق مکمل کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔رواں برس میں بہار یونیورسٹی میں بھی ان کے فکشن پر تحقیق کیا جا رہا ہے۔

علاوہ ازیں ایک مؤقر جریدہ ’’نگینہ انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے وحشی سعید صاحب کی ادارت میں شائع ہو رہا ہےجو وادی کشمیر میں تخلیقی و تنقیدی ادب کی پہچان ہی نہیں بلکہ تعمیری اردو ادب کا آئینہ دار بھی بن چکا ہے۔کسی جریدے یا رسالے کو تواتر سے شائع کرنا نہایت عرق ریزی کا کام ہے۔پچھلے پینتالیس سال سے یہ کام وحشی سعید صاحب اپنے ذاتی خرچے کی بنا پر سنجیدگی سے انجام دیتے آرہے ہیں۔اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وحشی سعید ادب کے تعین کس قدر ذوق اور جذبہ رکھتے ہیں۔بہر کیف کسی بھی فکشن تحریر کو مکمل نہیں کہا جاسکتا،یہ کوئی دستاویز نہیں ہےبلکہ یہ خیالوں کی دنیا ہے۔تخیل کی وساطت سے فکشن وجود میں آتا ہے۔فکشن نگار اپنی بھرپور کوششوں سے ایک تحریر تشکیل دے کر قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔دعا ہے اللہ تعالی وحشی سعید صاحب کے قلم کو اور وسعتوں سے نوازے۔آمین
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
پلوامہ اور بارہمولہ میں فوڈ سیفٹی کے چھاپے | قصابوں اور دکانداروں پر 35ہزار کا جرمانہ عائد
صنعت، تجارت و مالیات
بغیر ِڈرائیور کار اور ڈرون کےلیے مکھیوں پر انٹینا نصب | کرتب دکھانے والادنیا کا پہلا انسان بردار ڈرون ایجاد رفتار ِ ٹیکنالوجی
طب تحقیق اور سائنس
انفلوئنزا کی روک تھام صحت عامہ کے لئے ایک چیلنج | فلو ایک انتہائی منتقل ہونے والا وائرل انفیکشن ہے ِ صحت و طب
طب تحقیق اور سائنس
تمباکو نوشی ،پھیپھڑوںکے سرطان کی اہم وجہ! | سرطان کا ابتدائی عمل خاموشی سے پنپ جاتا ہے غور طلب
طب تحقیق اور سائنس

Related

کالممضامین

چین ،پاکستان سارک کا متبادل پیش کرنے کے خواہاں ندائے حق

July 13, 2025
کالممضامین

معاشرے کی بے حسی اور منشیات کا پھیلاؤ! خودغرضی اور مسلسل خاموشی ہمارے مستقبل کے لئے تباہ کُن

July 13, 2025
کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?