ہارون ابن رشید
ہماری وادی کشمیر ایک زمانے میں شرم و حیاء اور اخلاقیات کا مسکن مانا جاتا تھا۔ یہاں دینی یا مروجہ دانشگاہوں میں رواجی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کیلئے اوقات کار میں خصوصی وقت ہوا کرتا تھا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے سماجی طور حالات میں ایک ایسا بدلائو آیا ہے جس سے اخلاقی قدروں کا جنازہ نکلنا شروع ہوگیا ہے۔ اخلاقی گراوٹ کے سب سے زیادہ شکار یہاں ہی نوجوان نسل ہو رہی ہے۔ وادی کشمیر کو پیروار کہا جاتا ہے لیکن نہ جانے اس سرزمین کو کس کی نظر لگ گئی جس کی وجہ سے یہاں کے سماج میں کئی بُرائیاں پھیل گئیں، اور اخلاقیات پر ایسےمنفی اثرات مرتب ہو گئے جنہوں نے یہاں کے سماجی حالات کو تباہ کرنا شروع کر دیا ہے اور نوجوان کی ایک خاصی تعداد خرابیوں،بُرائیوں اورمنشیات کی لت میں مبتلا ہو رہی ہے۔اگرچہ کئی تبلیغی تنظیموںاور مذہبی و سماجی جماعتوں نے سماج میں پھیلی ان بُرائیوں اور خرابیوں کے خلاف کافی کچھ کام بھی کیا ہے اور بدستور کررہے ہیں ،جس کے نتیجے میں یہاں کی نوجوان نسل میں ایک مثبت سوچ بھی پیدا ہورہی ہے اوروہ اچھائیوں اور بُرائیوں میں تمیز کرنے لگے ہیںاور نیک کاموں کی طرف راغب ہونے لگے ہیں۔ لیکن ابھی اس کیلئے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ سرزمین کشمیر میں ایسے لوگوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے جو غیر اسلامی کلچر کے دلدادہ بنے ہوئے ہیں اور وہ اُسی کلچر میں اپنی زندگی کو رنگنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلمان ہو کر بھی ہم ان چیزوں کی طرف راغب ہورہے ہیں جن سے اخلاقی قدریں پامال ہوتی جارہی ہیں ۔ظاہر ہے ہمارے معاشرے کے بیشترلوگ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانے کیلئے ہر طرح کے وسائل کو کام میں لارہے ہیں تاکہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم ہافتہ بن کر اونچے عہدوں پر فائز ہوسکیں ۔ مگر اس بات سے غافل ہیں کہ اُن کے بچوں کو ابتدائی دور میں ہی صحیح تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ با اخلاق بن سکیں۔ بہت سارے والدین ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کو اخلاقیات کے حوالےسے بھی سنجیدہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اخلاقی طور باشعور بن سکیں۔تاہم والدین کی ایک کثیر تعداد اس معاملے میں غیر سنجید گی کا مظاہرہ کررہے ہیںجو کہ ایک افسوس ناک فعل ہے۔ والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ ،بزرگ شہریوں اور علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہاں کے معاشرے کی نوجوان نسل کو اخلاقی تعلیم کی طرف متوجہ ہوجائیںتاکہ سماجی سطح پر جو خرابیاں پیدا ہورہی ہیں، اُن کی روک تھام ہوسکے ۔ اگر ہم اب بھی غفلت میں رہے تو ایک ایسی صورت حال پیدا ہوجائے گی،جوکہ ہمارے سماج کے لئے تباہ کُن ثابت ہوگی۔یا د رہے کہ جس قوم یا معاشرے میں اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے اُس قوم یا معاشرے کو تباہی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اخلاقی قدروں کی حفاظت کرنے سے ہی سماجی سطح پر ہر طرح کی ترقی ہو سکتی ہے اور ہر سُو اس کامثبت اثر پھیل جاتا ہے ۔ اخلاقی قدروں کی پامالی سے ہم ہر طرح کی ترقی سے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس معاملے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنے سماج کو اچھائیوں کی طرف لانا ہوگا اور اس کیلئے کام کرناہم سب کی ذمہ داری ہے۔
[email protected]