محمد عرفات وانی
وادی کشمیر جو قدرتی حسن اور روحانی عظمتوں کا حسین امتزاج ہے، ہمیشہ ایسے جلیل القدر علما اور صوفیا کی جائے پیدائش رہی ہے جنہوں نے اپنی علمی و روحانی بصیرت سے اس خطے کو روشنی بخشی۔ انہی عظیم شخصیات میں حضرت مولانا نورالدین ترالی کا نام سنہری حروف میں رقم ہے، جو نہ صرف علم و عرفان کے ستون تھے بلکہ روحانیت و تقویٰ، اخلاص و للہیت اور امت کی اصلاح کے روشن چراغ بھی تھے۔ آپ کی ذات ایک ایسی درخشاں روشنی تھی جس نے نسلوں کو علم، عمل اور اخلاص کی راہ دکھائی۔
مولانا نورالدین ترالیؒ کا علمی سفر ایک معمولی طالبِ علم سے ایک صاحبِ حکمت شخصیت تک کا ایک غیر معمولی سفر تھا۔ آپ نے اپنے گاؤں ترال میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، جہاں آپ کو حضرت مولانا عبد الکبیرؒ جیسے عالمِ دین کی تربیت نصیب ہوئی۔ مگر آپ کی علمی پیاس یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ آپ نے اپنی جستجوئے علم کو وسیع کرتے ہوئے برصغیر کے معروف علمی مراکز سے بھی استفادہ کیا۔
حضرت مولانا نورالدین ترالی کی علمی و روحانی خدمات کا سب سے بڑا مظہر مدرسہ تعلیم الاسلام ترال کی بنیاد ہے۔ یہ ادارہ محض ایک تعلیمی مرکز نہیں بلکہ علم و حکمت کا وہ گلزار ہے، جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں نسلوں کی تربیت کی جاتی رہی۔ آپ نے اس ادارے کو علم و عرفان کا ایسا مرکز بنایا جہاں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کا بھی اہتمام کیا گیا تاکہ طلباء دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہوں۔یہ مدرسہ آج بھی اسی مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے جو مولانا نورالدینؒ نے شروع کیا تھا اور ان کے اخلاص و للہیت کی خوشبو اس ادارے کے ہر گوشے میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
حضرت مولانا نورالدین ترالی کی روحانی زندگی ان کے علمی مقام سے کہیں بلند تھی۔ آپ نے اپنے شیخ سے سلوک و تصوف کا فیض حاصل کیا اور اپنی زندگی کو ذکر و فکر اور تزکیۂ نفس کا عملی نمونہ بنایا۔ آپ کی مجالس سکون و طمأنینت کا گہوارہ ہوتیں جہاں دلوں کو ذکرِ الٰہی اور اتباعِ سنت کی دعوت دی جاتی۔آپ کی روحانی تعلیمات قرآن و سنت کی روشنی میں تھیں۔ آپ نے خالص دین کی طرف دعوت دی اور نفس کی اصلاح، عاجزی، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کی تلقین کی۔آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کا اعلیٰ اخلاق اور امت کی اصلاح کا جذبہ تھا۔ آپ نے عدل و انصاف، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیا اور معاشرتی برائیوں کے خلاف عملی جدوجہد کی۔آپ کی گفتگو نرم و شیریں اور اندازِ تبلیغ نہایت مؤثر تھا، جو دلوں میں اتر جاتا تھا۔ آپ نے امت کو دین کی اصل روح سے روشناس کرایا اور لوگوں کو تقویٰ، اخلاص اور خدمتِ خلق کی تعلیم دی۔
22 جنوری 1993ء کا دن وادیٔ کشمیر میں غم اور افسوس کا دن تھا، جب مولانا نورالدین ترالی نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے دوران سجدے میں اپنے ربّ سے جا ملے۔ سجدے میں جان کا جانِ آفرین کے سپرد ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ان کی زندگی اللہ کی رضا اور اخلاص سے بھرپور تھی۔آپ کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی، جو ان کی مقبولیت اور عوامی محبت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔حضرت مولانا نورالدین ترالی کی زندگی ایک مکمل اور جامع پیغام ہے کہ علم کے ساتھ عمل اور روحانیت کے ساتھ خدمتِ خلق کو جوڑنا ہی اصل کامیابی ہے۔ آپ کا پیغام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو علم و عرفان اور اخلاص و محبت سے منور کریں اور امت کی اصلاح و فلاح کے لیے سرگرم عمل رہیں۔حضرت مولانا نورالدین ترالی کی زندگی ایک ایسی سنہری وراثت ہے جو ہمیشہ علم و روحانیت کے متلاشیوں کے لیے مینارۂ نور بنی رہے گی۔ آپ کی علمی و روحانی خدمات کشمیر کی تاریخ کا وہ درخشاں باب ہیں جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
[email protected]