ڈاکٹر فلک فیروز
انسان اللہ کی پیدا کردہ تمام مخلوقات میں اعلیٰ درجے پر فائز ہے ،جس سے قلب و لسان کی دولت عطا کی گئی ہے اور اس سے قدرت نے سکھایا ہے کہ زندگی میں خوب جیو ،کھائو پِیو اچھی اچھی نعمتیں جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں ۔ہماری بنائی گئی دنیا کی سیر کر و،غور و فکر کرو اور اللہ کی بڑائی بیان کرو۔ سمندروں،آسمانوں،وادیوں،پہاڑوں میں جو خزانے پوشیدہ ہیں انھیں مسخر کرو۔ خدا کی شان کریمی اپنی زبان سے بیان کرو اور دل سے اس کی تصدیق کرکے محسوس کرو۔ یعنی ہر صورت میں اللہ کی حمد بیان کرو اور عطا کی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرو۔ ساتھ ہی خدا نے انسان کو بتایا کہ اور تم اپنے پروردگارکی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (القران)۔ حق تو یہی ہے کہ انسان خدا کی نعمتوں کا شمار ہی نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ اللہ کی نعمتیں لامحدودہیں اور انسان کی عقل محدود ۔اس پر طرہ یہ کہ انسان محدود تک بھی استعمال شدہ نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر پاتا ہے۔ بقول ٹیچ میشی :
”When you arise in the morning, give thanks for the morning light, for your life and strength. Give thanks for your food and the joy of living, If you see no reason for giving thanks, the fault lies with yourself”. Tecumseh (1768-1813) Shawanee Native American Leader
واقعی طور پر ہمارے اندر ہی کمی موجود ہے کہ اللہ کی شان سے بے خبر ہیں اور اللہ کی جانب سے جو نعمتیں ہمیں دی گئی ہیں، ہم ان پر ناشکرے اور بے قدرے ہیں جس کی وجہ ہماری زندگیوں میں مصائب و آلام آتے ہیں۔ہم ہمیشہ نہ ملنے والی چیزوں، اپنی ناکامی،پائے تکمیل تک نہ پہنچنے والے کاموں کی شکایت یا شکوے کرتے ہیں اور اپنے نیچے،دائیں،بائیں،اوپر،آس پاس جو ہمیں فطرت قدرت نے عطا کی ہیں، کی جانب کبھی نظر دوڑا کر غور نہیں کرتے ہیں بلکہ ہم قصوروار ہونے کی فہرست میں ان چیزوں کو ڈالتے ہیں جن کا ہماری ناکامی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ جس محرک چیز کی جانب ہمیں اپنی توجہ مبذول کرنی تھی ،اس کی طرف دھیان دیا ہی نہیں جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ شکرادا کرو گے تو اور عطا کروں گا لیکن اگر ناشکری کرو گے تو عذاب میں مبتلا ہو جائوگے۔‘‘( القران )
تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ جنھوں نے اللہ کا شکر بجالایا، انھیں اللہ نے نوازا اور ان کا ایمان اللہ پر مضبوط تھا، حضرت نوح ؑنے مصایب پر صبر اور شکر بجالایا،حضرت ایوبؑ کا پورا جسم نحیف،لاگر،کمزور ہوا محض ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہا لیکن کبھی زبان پر حرف نہ آیا اور بیشک اللہ نے صحت یاب کردیا،حضرت یوسفؑ کو اپنے بھائیوں نے کنویں کے حوالے کردیا اور اللہ کے حضور دعا کرتے رہے بھروسے نے تھام لیا، حضرت ابراہیمؑ آگ میں نہ جل سکے کیونکہ اللہ کا بھروسہ تھا،حضرت موسیٰ ؑاور اسکی قوم کو دریا سے راستہ ملا۔ حضرت یونسؑ نے خدا کی وحی کا انتظار کئے بغیر اپنی قوم ،جن کا توبہ قبول ہوچکا تھا اور خدا کا عذاب ان سے ٹل چکا تھا، میں جانا پسند نہ کیا بلکہ وہاں دوسرے قوم کی طرف جانے کا ارادہ کیا،تو خدا نے دریا میں طوفان برپا کر دیا اور یونسؑ کشتی سے گر کر مچھلی کے پیٹ میں آگئے۔ حضرت یونسؑ نے جب مچھلی کے پیٹ میں خود کو زندہ پایا، تو بارگاہِ الٰہی میں اپنی اس ندامت کا اظہار کیا کہ وہ کیوں وحی الٰہی کا انتظار کئے اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لیے بغیر اپنی قوم سے ناراض ہوکر نینوا سے نکل آئے؟ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور ذوالنون جب غصّے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم اُن پر قابو نہ پاسکیں گے۔ آخر اندھیرے میں (اللہ کو) پکارنے لگے۔ لاالٰہ اِلّاانتَ سبحآنک اِنّی کنت مِن الظّٰلمین۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، آیت 87)۔یعنی ’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے (اور) بے شک مَیں قصوروار ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونسؑ کی دردبھری آواز سُنی اور دُعا قبول فرما کر مچھلی کو حکم دیا کہ ’’یونس کو، جو تیرے پاس ہماری امانت ہے، اُگل دے۔‘‘ چناں چہ مچھلی نے ساحل پر حضرت یونسؑ کو اُگل دیا۔ اسی طرح ان لوگوں کا حشر بھی تاریخ میں موجود ہے جنھوں نے دنیا کے مختلف خطوں پر حکمرانی کی اور جو اپنے اقتدار و اختیار کے نشے میں ایسے مدہوش ہوگئے کہ ظالم و جابر بن گئےاور اللہ کی پیدا کردہ مخلوق کو بے دردی سے مارا،قتل کیا اور خود خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے۔ یہ نادان نہیں جانتے تھے کہ اللہ واحد ہے جس کی ہر نعمت کا شکر بجا لانا انسان کا فرض ہے، جنمیںقارون، فرعون،نمردو، جالوت، ہامان، ہیراڈاعظم، نیرو،پوپ،الیکزنڈرششم،کلیگورا،کنگجان،میکسی میلین،چنگیزخان،ولادی امپیلر، اٹیلادیہن، لیوپولڈدویم، پول پاٹ، ایمپور ہیرو ہیٹو،جوزف اسٹالن اور ایڈولف ہٹلر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔یہ بات اپنی جگہ سالم ہے کہ ہم انسان شکر نہیں کرتے ہیں ان چیزوں کےتئیں جو ہمیں قدرت نے مفت میں عطا کردی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارا سالم جسم،دستیاب خوردو نوش کی چیزیں،آسائش و آرام دہ سہولیات،مال و جائیداد،اولاد،عزت و تکریم،صحت کی دولت،وہ چیزیں جو ہمارا حق نہ ہونے کے باوجود بھی اللہ نے عطا کر دی ہے۔جس کی وجہ سے قدرت اپنے قانون کو روا رکھ کر ناشکرے انسان کو وادیٔ سراب میں بھٹکا کر پریشان رکھتا ہے،مایوسی اس کا مقدر بن جاتی ہے،بے برکتی اس کا نصیب بن جاتا ہے،رزق کی تنگی اس پر نافذکی جاتی ہے اور اس کے قلب و لسان سے حمد کی توفیق چھن جاتی ہے اور بندے کی زبان صرف اللہ کی ناشکری کرتے ہوئے سنائی دیتی ہے۔
کرے جس قدر شکر نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے (آتشؔ )
ایسے فرد کو نفسیاتی علوم کے اسباق میں بے قدرا یا نا شکرا بتایا جاتا ہے۔انسانی رویوں یا بیہیورل سائنس پر کام کرنے والے محقیقین کا ماننا ہے کہ ان افراد سے دوری اختیار کرنا ازحد لازم ہے۔کیونکہ ایسے لوگ دوسرے لوگوں کے ایمان،توکل،اللہ پر یقین،شکر کی دولت پر ڈھاکہ ڈالنے کا کام کرتے ہیں جس کی ذمہ داری ابلیس نے قبول کی تھی کہ وہ لوگوں کے دائیں،بائیں،آگے،پیچھے،اوپر سے نیچے سے حملہ کریگا اور ان کے اندر وسوسے ڈالے گا۔دنیا میں انسان کے ناخوش،مایوس،بیزار،ناراض رہنے کی بنیادی وجہ ناشکرا پن اور بے قدرا پن کو قرار دیتے ہوے متعدد موٹویشنل مقررین کا ماننا ہے کہ اللہ کا شکریہ ادا کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے، نیز اللہ کے بندوں کا شکریہ ادا کرنے سے بھی دل کو مسرت ملتی ہے اور لوگوں کے دل آپکے لئےنرم پڑتے ہیں۔ اس لئے ہر اس فرد کا شکریہ ادا کرناسیکھیں جو آپ کو نیک مشورہ دیتا ہے،جو آپ کو خیر کا راستہ دِکھاتا ہے،جو مصیبت کے وقت آپ کا ہاتھ تھامتا ہے،جو آپ کی خاطر سہولیہات بہم رکھتا ہے، جو آپ کی قدر کرتا ہے، جو آپ کو حصول علم میں مدد بہم رکھتے ہیں، جنھوں نے ہمیں ظلمت سے نکال کر نور کا راستہ دیا۔علم اعصاب،علم نفسیات نیز بہت سارے موٹیویشل اسپیکر اور روحانی علوم پر کام کرنے والے صاحب نظر و قلب دور جدید میں موجود ہیں، جن کی تحقیق، علوم و نظریات یہ بتاتے ہیں کہ شکر ادا کرنے کے عمل یا فن میں واقعی اللہ کی مدد،خیر اور رحمت پوشیدہ ہیں۔ ان میں اصحاب میں مسلم اور غیر مسلم دونوں مقررین،علما،ادبا ءشامل ہیں جن میں ابن عباد،الغزالی،ابن قایم الجوازیح،اسمائل کامدار، قاسم علی شاہ،بی کے شیوانی محمد، انگریزی ادباء میں چند کلاسکی اور چند جدید قابل ذکر ہیں۔
Ralph waldo Emerson,Maya Angelou,Louisa may Alcott,kathryn schulz,Oliver sacks,Ama Quindlen,Eckhart Tolle,Gina Hamadey.etc.
اس کے علاوہ عہد حاضر میں مختلف ایسے علما،مفکرین موجود ہیں جو اپنی علمی و روحانی فیوض کے ذریعے ترسیل کے مختلف پلیٹ فارمز پر لوگوں کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور خیر پھیلا رہے ہیں۔ ڈینش پراگر تشکر کے فن سے متعلق رقمطراز ہیں۔
” One cannot be a good person without gratitude, and one cannot be a happy person without gratitude. This provides a vital link between goodness and happiness.’’(Dennis Prager)
مسرت اور اچھائی نیز خیر کے درمیان تشکر،شکریہ بجا لانا ہی بنیادی ضامن ہے جس کی قوی مثالیں موجود ہیں۔ قاسم علی شاہ دنیا کے بہترین موٹیویشنل مقررین میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نےبر صغیر کے لوگوں کو خاص طور سے ایک امید اوار خیر کے کاموں سے جوڑا ہے، لکھتے ہیں
ہمیں اپنا درجن بارہ کے بجائے تیرہ کرنا تھا لیکن ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم نے درجن بارہ کے بجائے گیارہ کردیا، تو خود آپ فیصلہ کر دیجئےہمارے متعلقہ کاروبار جو بھی ہیں، کی حالت کیا ہوگی۔جس قوم کی اجتماعی حالت ایسی ہو یا جہاں لوگوں کی کثیر تعداد ایسی موجود ہو کہ عطا کردہ فی صد پر تشکر کے بجائے نہ ملنے والےفی صد کا رونا رویا جارہا ہو اور انہیں انکے پاس موجود چیزوں کا احساس ہی نہیں ،تو گویا ایسے افراد کی قلبی کیفیت اور ذہنی حالت کو ناشکرا یا بے قدرا ہی کہا جاسکتا ہے۔ جن کے یہاں میزان میں کمی ہوگی،اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں خیانت ہوگی،دوسروں کےتئیں ناخوشی ہوگی، زہریلے پن سے بھرے ہونگے، بات بات پر افسوس ہوگا،یہ اپنے خالق کی عطا کردہ رحمتوں کا مزہ لےلے کر بھی شکر ادا کرنے سے رہ جاتے ہیں ،خدا کی تقسیم پر بیزاری کا اظہار کرتے نظر آسکتے ہیں۔ اس تمام تر حالت سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ اللہ کا شکر بجا لایا جائے جو کہ ایک قلبی کیفیت ، ذہنی حالت و روحانی عمل مانا جاتا ہے۔ کسی دانانے شکر کے تعلق سے کیا خوب لکھا ہے:
Thank you, God, for the strength you give me to face each day with courage and grace۔in moments of doubt, I am grateful, God, for the faith that lights my path.’’
(رابطہ۔8825001337)