قیصر محمود عراقی
ملک میںکورپشن ، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کی کہانیاں ہر طرف زبانِ زد عام ہے۔نہ صرف اعلیٰ سے اعلیٰ عہدیدار سے لیکر ایک چپراسی تک بلکہ بعض وزیر اور سیاست دان بھی کورپشن کے مرتکب ہورہے ہیںاور بدعنوانیوں کو چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آرہے ہیں۔ ہر سرکاری افسر بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کیلئے بے تاب ہے اور لیڈران بھی بدعنوانی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ دلوں میں موجود لوٹ کھسوٹ کے جذبات اب زبانوں پر آرہے ہیں، عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی سیاسی حکومتیں احتساب کا نعرہ تو لگاتی رہی ہیںاور لگارہی ہیںلیکن کرپٹ عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا کارنامہ تاحال مثبت انداز میں سرانجام نہیں دیاجارہا ہے۔ملک میں کرپشن کا ناسور بیشتر اداروں میں اس انداز میں سرایت کرچکا ہے کہ اب شاید ہی کوئی اس سے بچ پایا ہو۔ بدعنوان عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرنے پر سیاسی جماعتوں کے طرف سے جس طرح کا ردِ عمل سامنے آرہا ہے، وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ حالیہ برسوں میں مفاہمت کی سیاست کے نام پر ایسے اقدامات اٹھائے گئے جس کا مقصد ایک دوسرے کی بدعنوانی کو تحفظ دینا ٹھہرا ہے۔
ملک کے بڑے بڑے شہروں پر نظر ڈالی جائے تو دن بہ دن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، لوگ ضروریاتِ زندگی کے میسر نہ ہونے پر لقمہ اجل بن رہے ہیںمگر حکومت وقت اس طرح خاموش ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ملک میں عیش وآرام میں رہنے والے حکمران کچھ بھی نہیں کررہے ہیں مگر پھر بھی بے وقوف عوام ان نالائق حکمرانوں کو اپنا اَن داتا سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس لئے وہ کیوں عوام کے لئے اپنا سر کھپائیں۔ آج ملک میں ہر سُو لوٹ مار کا بازار اس طرح گرم ہے جیسے دھن آسمان سے ٹپک رہا ہو، لالچی حکام کرپشن کرنے میں اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ معصوم عوام کی سوچ سے بالاتر ہے۔خود کو عوام کا خدمت گار کہنے والے لوگ جب اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں تو عوام کو یکسر بھول جاتے ہیں اور خود عیاشیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ملک میں ایسے لوگوں کیلئے بہت جگہ ہے ، جنہوں نے کرپشن کی ہو ، جنہوں نے قتل وغارت کی ہو، جنہوں لوٹ مار کی ہو ، جنہوں نے بیوائوں اور یتیموں کے مال کھائے ہوں، ایسے بہت سے لوگ بھی ملیں گے جو نہ صرف اپنے اس عمل پر فخر سے ملک میں گھوم پھررہے ہونگے بلکہ ان کو اپنےبُرے کاموں پر نہ کوئی شرمندگی ہوگی اور نہ کوئی احساس ندامت ہوگی۔ اگر کرپٹ لوگوں کی بات کریں تو بہت لمبی لسٹ ہے جس میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ملک کے اہم عہدوں پر فائزرہ چکے ہیںاور جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو ایسا لوٹا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ ہندوستان میں کرپشن سیاست اور دیگر شعبوں تک ہی محدود نہیں بلکہ تعلیم اور صحت کا شعبہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ پوری دنیا میں تعلیم پر حکومتوں اور نیچی اداروں کی طرف اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں تاکہ آئندہ نسلیں پروان چڑھ کر ملک کی ترقی میں اپنا موثر کردار ادا کرسکیں لیکن یہاں حالات اس کے بر عکس ہیں۔ تعلیمی سر گرمیوں کے فروغ کیلئے جاری کئے گئے فنڈز میں رکارڈ توڑ کرپشن کی خبریں آئے روز اخبار کی زینت بنتی ہیںلیکن کوئی پوچھنے والا نہیں،کیوں کہ اوپر سے نیچے تک سب اس میں ملوث ہیں۔ ہزاروں اسکولوں کے اساتذہ گھروں میں بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیںاور تعلیم ایک انتہائی منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے، صحت کے شعبے میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔
اگر ملک میں ہونے والی کرپشن کا حساب لگایا جائے تو ہمارے یہاں سرکاری ادارے اور حکمراں سالانہ اربوں ارب کی کرپشن کررہے ہیں، قوانین کی موجودگی کے باوجود ان پر عمل نہ کرنے اور کرپٹ عناصر کو بر وقت سزائیں نہ دینے سے ملک میں ناسور کی طرح پھیلنے والی کرپشن ملک کے لئے بدنامی کا باعث بن رہی ہے، کرپشن ’’امربیل‘‘کی طرح بڑھ رہی ہے اور اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ یہاں زیادہ تر کورپشن حکومت کی چھترچھایا میں ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے کرپٹ عناصر کو کڑی سے کڑی سزا دیئے جانے کے آئے روز بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیںلیکن مقامِ افسوس ہے کہ یہی کرپٹ عناصر جنہیں محکمہ اینٹی کرپشن نے مجرم قرار دیا ہوتاہے، حکومتی عہدوں پر براجمان اپنی اپنی ’’عدالتیں‘‘ لگائے بیٹھے ہیں، کیونکہ ملک کا باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں جو جتنا بڑا چور ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اپنی معصومیت کا شور مچاتا ہے تاکہ لوگ اسے بے گناہ سمجھیں ۔ بہر حال آج کے اس دور میں کیا سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی حسب سابق خاموش تماشائی کا مظاہرہ ہی کیاجائیگا یا حالات کو تبدیل کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائینگے۔
کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئے بدعنوان عناصر جن میں بیوروکریٹس ، سیاستداں اور سرکاری ملازمین شامل ہیں، کے خلاف جب تک ٹھوس کارروائیاںنہیں ہوجاتیں تب تک ہمار ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوگا۔
رابطہ۔6291697668