فضل حسین
کسی بھی معاشرے کی معیشت کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس شعبہ کے طرف اتنی توجہ نہیں دی جارہی ہے جتنا دینے کی ضرورت ہے۔اب تو ہمارے یہاں کے بیشتر کاشتکار یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کام صرف کیمیائی کھادوں اور زہریلی سپرے کا استعمال کر کے فصل تیار کر نا ہے اوربازاروں میںان کی فصلوں کواچھے ریٹوں پر فروخت کرنا ہے۔ حالانکہ اس سوچ کو مدنظر رکھ کر وہ متواتر خسارے میں جارہے ہیں، کاشتکاروں کو سمجھنا چاہیے کہ سارے کام حکومت کے نہیں ہوتے بلکہ انہیں بھی خود بھی بہت کچھ کرنا ہے۔ چھوٹے چھوٹے تجربات سے نہ صرف وہ کیمیائی کھادوں اور زہریلی سپرے سے جان چھڑا سکتے ہیں بلکہ وہ اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتے ہیں۔اخراجات کم اورزمین کی طبعی عمر بڑھ سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر صحت مند اور زیادہ پیداوار حاصل کر سکتا ہے۔ان چیزوں کا نہ تو ہمارے کاشتکار وں کو زیادہ علمیت ہے اور نہ ہی حکومتی ادارے کاشتکاروں کی خاطر خواہ تربیت دینے کے لئے ٹھوس اقدام کررہی ہے۔ کاشتکار کا فرض ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ مثلاً پریس اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف خاص توجہ دے۔ معاشرےکی ترقی کیلئے جہاں انڈسٹری ضروری ہے، وہیں زراعت بھی بہت اہم ہے۔ حکومت کے ساتھ ہماری کاشتکار برادری کا حق بنتا ہے کہ زراعت کو جدید خطوط پر استوارکریں کیونکہ آبادی بڑھنے سے زرعی رقبہ کم ہورہا ہے، ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہ کر اپنے مسائل خود حل کرنے ہوں گے ۔ اس کا واحد حل جدید اور آرگینک زراعت ہے، ورنہ نہ صرف ہمارے معاشرے کی ترقی رُک جائے گئی بلکہ ہم قومی برادری سے بھی پیچھے رہ جائیں گے اور اپنی آنے والے نسل کو مقروض در مقروض چھوڑجائیں گے ۔اگر دھان کی کٹائی مکمل ہوچکی ہو تو آپ نے دھان کی فصل کے بقایا جات کو آگ ہر گز نہیں لگائیں کیونکہ آپکو شاید پتہ نہ ہو کہ آگ لگانے سے کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ آگ لگانے سے زمین کے مسام جل جاتے ہیں۔ زمین کی جلد جل جاتی ہے۔ زمین کے اندر مہربان کیڑے جل کر مر جاتے ہیں۔ آگ لگانے سے آدھی بوری کے برابر فاسفورس آدھی بوری نائٹروجن قریباً آدھی بوری پوٹاش جلا دیتے ہیں ۔ صرف راکھ سے 10فیصد پوٹاش ملتی ہے ۔ دھان کی کٹائی کے بعد جب بھی زمین و تر پر آئے تو دو مرتبہ ہل چلائیں پھر 5 کلو گرام یوریا کھاد کا چھٹہ کرکے روٹا ویٹ کردیں ۔ پھر جو بھی آپ کا جی جاہے فصل کاشت کریں ۔اگر اس کے علاوہ بھی اور کوئی اچھا طریقہ ہو تو آپ ضرور کرسکتے ہیں ۔ مقصد صرف یہی ہے کہ فصل کے بقایا جات کو آگ ہر گز نہیں لگانی ہے۔ یہ زمین کا حق ہے جو اس کو آپ نے واپس لوٹانا ہے ۔ اس میں نامیاتی مادہ جو سبز کھاد کی صورت میں زمین کو ملے گا۔
دوسری فصل گند م کی ہے اور ہمارے معاشرے کے بیشتر لوگوں کی مرغوب خوراک ہے۔ ہماری زمین اور آب و ہوا گند م کیلئے موافق ہے۔ہزاروں ایکڑ پر گندم کاشت کی جاتی ہے۔ گندم کی کاشت سے پہلے زمین کا تجزیہ کرائیں، اس کو ہم پانی اور مٹی کا تجزیہ کہتے ہیں ۔ قریباً ہر ضلع میں ایک لیبارٹری ہے جو کہ ٹیسٹ کرتی ہے۔ ٹیسٹ کے بعد پتہ چل جائے گا کہ زمین اساسی ہے یا تیزابی ، دوسرے لفظوں میں اگر آپ کی زمین کا PHPلیول 8سے زیادہ ہے تو بطور فاسفورس آپ DAPسے پرہیز کریں بلکہ بطور فاسفورس آپ نائٹروفاس ، TSPیا SSP استعمال کرسکتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہ بطورنائٹروجن بھی یوریا کے بجائے امونیم سلفیٹ استعمال کریں ۔
گندم کاشت کرنے سے پہلے زرعی ماہرین سے سیڈز کے بارے میں مشاورت ضرور کریں کیونکہ گندم کا ہر بیج ہر زمین کیلئے بہتر نہیں ہوتا ۔ مثال کے طور پر ہلکی میرا زمین میں بڑی قدآور ورائٹی موزوں سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا زمین کی مناسب ورائٹی کا انتخاب کریں ۔ گندم کی کاشت میںآدھا کلوگرام برسیم کا بیج چھٹہ کریں کیونکہ کھادوں کا استعمال بطور فولیئر کریں،چھٹہ سسٹم سے پرہیز کریں۔ چھٹہ کرنے سے 50فیصد نائٹروجن اُڑ جاتی ہے ۔ صرف 50فیصد پودے کو ملتی ہے۔فضا کے اوپر 36فیصد نائٹروجن فی ایکڑ موجود ہے ۔ گندم کاشت کرتے وقت اس طریقہ کار کو خاص طور پر مدنظر رکھیں کہ آپ کی فصل کے اندر ہوا کا گذر بھی آسانی سے ہوجائے ۔ ان چھوٹے چھوٹے مسائل پر اگر ہمارا کاشتکار توجہ دے تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے ۔ گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا اور اخراجات بھی کم ہوجائیں گے۔
کماد ہمارے ملک کی بڑی نقد آور فصل بن چکی ہے۔ لاکھوں ایکڑ رقبہ پر گنا کاشت ہوتا ہے اور سیکڑوں شوگر ملیں ملک میں کام کررہی ہیں۔ قریباً دیگر فصلوں کی طرح کماد کی بھی ہماری فی ایکڑ پیداوار دیگر ممالک سے بہت کم ہے ۔ 630من فی ایکڑ پیداوار کاشتکار کو کوئی نفع دینے کے بجائے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتی ۔کاشتکار اگر وہ اپنی سوچ کو بدلے تو اس کو معقول روزی مل سکتی ہے۔ گنے کی کٹائی کے بعد گنے کی کھوری کو ہر گز آگ نہ لگائیں۔ دھان اور گندم کی طرح اس میں بھی فاسفورس ، نائٹروجن اور پوٹاش (اجزائے کبیرہ) کافی تعداد میں موجود ہیں ۔ کٹائی کے بعد اس کی کھوری کو فصل کے اندر بکھیر کر اس کو 20کلوگرام یوریا کھاد پانی 200لیٹر اور گندم دھک کا تیزاب 10کلوگرام فی ایکڑ مکس کر کے فلڈ کریں ۔ پھر دوسرے پانی پر یوریا 20کلوگرام پانی 200لیٹر اور گڑ کا شیرہ 10کلوگرام ملا کر فی ایکڑ فلڈ کریں ۔ایک ماہ کے اندر کماد کی ساری کھوری ڈی کمپوزڈ ہوکر پھر کھاد بن جائے گی ۔ پانی کی کھپت بھی کم ہوگی اور آئندہ سال پیداور بھی کم از کم 100من فی ایکڑ زیادہ آئے گی کیونکہ کھوری کوجلانے سے دیگر فصلات کی طرح کماد کی فصل پر بھی برے اثرات پڑتے ہیں ۔دھڑا دھڑ کیمیائی کھادیں استعمال کرنے سے ہماری زمین کے اندر نامیاتی مادہ قریباً 0.50سے لے کر 0.80رہ جاتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ ہماری پیداوار ایشامیں قدرےکم ہے۔ جب تک ہم آرگینک کھاد پر نہیں آئیں گے اس وقت تک ہماری زمین زرخیزی کی طرف واپس نہیں آئے گی ۔ آرگینک کھاد سے ہی پودوں کو متوازن خوراک ملتی ہے اور زمین کی عمر بڑھتی ہے ۔ پیداوار میں بھی دو گنا اضافہ ہوتا ہے اور کوالٹی اور مقدار کا بھی خاص فرق پڑتا ہے ۔