میم دانش۔سرینگر
موسموں کی غیر متوقع تبدیلی اس وقت سب سے سنگین عالمی چیلنجوں میں سے ایک بن چکی ہے، جس کے اثرات ماحولیاتی نظام، معیشتوں اور معاشروں پر واضح طور پر محسوس کئے جا رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، گلیشیئرز کے پگھلنے اور جنگلات میں آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات اس جاری بحران کی صرف چند نشانیاں ہیں۔ کشمیر جیسے علاقے جو اپنی قدرتی خوبصورتی اور حیاتیاتی تنوع کی وجہ سے مشہور ہیں، ان تبدیلیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ کشمیر کا نازک ماحولیاتی نظام خاص طور پر حساس ہے، جس کی وجہ سے اس خطے کے لئے ماحولیاتی تحفظ ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔
کشمیرمیں حالیہ دہائیوں سے اوسط درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ماحولیاتی سائنس دانوں کی رپورٹس کے مطابق، یہ علاقہ عالمی اوسط کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔ کولہوئی اور تاجیواس جیسے گلیشیئرزتیزی سے پگھلتے جا رہے ہیں، جو خطے کے دریاؤں کے لئے پانی کے اہم ذرائع ہیں۔ گلیشیئرز کے سکڑنے سے نہ صرف آبی تحفظ کو خطرہ لاحق ہے بلکہ زراعت بھی کافی حد تک متاثر ہو رہی ہے جو کہ کشمیری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔زیادہ درجہ حرارت کے نتیجے میں سردیاں مختصر اور گرمیاں طویل ہو رہی ہیں۔ موسمی تبدیلیاں یہاں کے نباتات اور حیوانات، جیسے چنار کے درخت اور مہاجر پرندوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ مزید یہ کہ بڑھتی ہوئی گرمی شدید موسمی واقعات، جیسے بارشوں اور سیلابوں کے خطرے کو بڑھا رہی ہے، جنہیں کشمیر نے حالیہ برسوں میں جھیلا ہے۔یہاں پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سب سے تشویشناک نتائج میں سے ایک جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہے۔ پیر پنچال اور ہمالہ کے سرسبز جنگلات، جو متنوع حیاتیات کے مسکن ہیں اور قدرتی کاربن ذخائر کے طور پر کام کرتے ہیں، اب طویل خشک موسموں اور زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔
حالیہ برسوں میں، وسیع پیمانے پر جنگلات میں آگ نے یہاں کے جنگلاتی رقبے کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ آگ نہ صرف مسکنوں کو تباہ کرتی ہے بلکہ ذخیرہ شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی خارج کرتی ہے، جوگرین ہائس اِفکٹ کو مزید بڑھارہی ہے۔کشمیر کے ماحول کے تحفظ کے لئے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو پائیدار طریقوں، مقامی کمیونٹیز کی شمولیت اور پالیسی مداخلتوں کا امتزاج ہو۔تباہ شدہ جنگلات کی بحالی اور مقامی درختوں کے پودے لگانا علاقے کے ماحولیاتی توازن کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایسے پروگراموں کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے جن سے مقامی لوگوں کو درخت لگانے کے لئے تیار کیا جا سکے تاکہ ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوسکے ہیں۔
موسمی تبدیلیوں کے خلاف لچکدارفصلوں کی کاشت اور پانی کے کم استعمال والے آبپاشی کے طریقے اپنانے سے زراعت پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات کم کئے جا سکتے ہیں۔ کسانوں کو پائیدار طریقوں کے بارے میں تعلیم دینا زراعت کی ماحولیاتی قیمت کو کم کرنے کے لئے ضروری ہے۔جنگلات کی آگ کے لئے ایک انتباہی نظام تیار کرنا اور فائر فائٹنگ کے بہتر انفراسٹرکچر کی تعمیر ضروری ہے۔ انسانی پیدا کردہ آگ کے خطرات کے بارے میں آگاہی ،حادثات کو روکنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دینے کے لئے پالیسی سازوں کو قوانین اور ضوابط کے نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا، جو جنگلات اور آبی ذخائر کی حفاظت کرتے ہیں۔ موسمیاتی رجحانات اور ان کے اثرات کی نگرانی پر جامع پروگرام مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔موسمی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کے بارے میں بھر پور آگاہی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس طرف راغب کر سکتی ہے۔ اسکول، کالج اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں ماحولیاتی ذمہ داری کو اُبھارنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اگرچہ کشمیر منفرد چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے، لیکن اس علاقے کی حالت عالمی موسمی بحران کی عکاسی کرتی ہے۔ ماحول کے تحفظ کے لئے مقامی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر اجتماعی اقدام کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کر کے کشمیر جیسے علاقوں کو موسمی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں مدد دینی چاہیے۔
یہاں کے ماحول کا تحفظ نہ صرف خطے کے ماحولیاتی اور ثقافتی ورثے کے لئے اہم ہے بلکہ یہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی ضروری ہے۔ جیسے جیسے موسمی تبدیلیوں کے اثرات شدید ہوتے جا رہے ہیں، اس زمین پر موجود ــ’’جنت ‘‘کے توازن کو محفوظ رکھنے کے لئے پیشگی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں حالیہ تباہ کن آگ کی وارداتیں اس بات کی طرف فوری توجہ دینے پر مجبور کرتی ہے کہ ہمیں ان موسمی تبدیلیوں کے خلاف عالمی اور مقامی سطح پر مل جل کرکام کرنا ہوگا تاکہ ہمارے اس مشترکہ گھر کی بھر پور حفاظت کی جا سکے۔