سید مصطفیٰ احمد
میں ایک چھوٹے نجی کوچنگ سنٹر میں پڑھاتا ہوں۔ اپنی معمولی ذہانت کے مطابق طلباء کو علم کی روشنی سے آگاہ کرنے کی بھرپور کوششیں کرتا ہوں۔ پانچ چھ سال سے اس کام کو اپنی حیثیت کے مطابق انجام دے رہا ہوں۔ میں نے جو محدود عمل کالج سے حاصل کیا ہے، اس سے سو فیصد زیادہ میں نے طلباء سے سیکھا ہے۔ ان معصوموں کو دیکھ کر میرے دل میں خوشی کی لہر دوڑتی ہے کہ ایک گناہگار ہونے کے باوجود بھی میں کوئی ایسا کام کر رہا ہوں کہ جس سے کسی کا حال اور مستقبل سنور سکتا ہے۔ لیکن مجھے دکھ اس وقت ہوا ،جب گورنمنٹ اسکول کے پانچویں جماعت کے طلباء کو میں نے کتابوں کے بغیر تعلیم حاصل کرتے ہوئے پایا۔ کچھ دنوں پہلے میں ان طلباء کو atmospheric pressure کا سخت تصور سمجھا رہا تھا۔ Rarer اور denser media کے کٹھن مراحل سے ان کو گزارتے وقت میرا دھیان اچانک ایک بچے کی طرف مبذول ہوا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کلاس کے بیشتر طلباء کی طرح وہ بھی کتابوں کے بغیر نجی کوچنگ سنٹرس میں پڑھنے جاتے ہیں۔ اسی طرح reported speech کو سمجھاتے وقت کی بھی یہی خامی نظر دکھائی پڑی۔ اس سلسلے کی کڑی میں ایک اور اضافہ تب ہوا، جب میں نے طلباء کو اردو زبان کی درسی کتب سے بھی خالی پایا۔ میں سمجھ ہی نہیں پایا کہ یہ بچے کیسے آگے چل کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لاسکتے ہیں! ان طلباء کے ماں باپ اَن پڑھ ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی تعلیمی اداروں کا رُخ بھی نہیں کیا ہے۔ ان کی لغت میں تعلیم کا لفظ ایک خواب ہے لیکن میں ان کی فکر کی لاج رکھتا ہوں۔ خود ناخواندہ ہونے کے باوجود،وہ ماں باپ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کی فکر میںجُٹے ہیں۔ وہ جتنی ماہانہ فیس ادا کرسکتے ہیں، مہینے کے پہلے دن ہی ادا کرتے ہیں۔ مگر افسوس ہوا کہ حکومت کے ببانگ دہل نعروں کے باوجود بہت سارے طلباء کتابوں کے بغیر ہی نئی جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اصل میں اس خامی کے پیچھے بہت سارے عوامل کا عمل دخل ہے۔ برسوں سے کشمیر سیاست کی جس گندگی میں ڈوبا جارہا ہے،اُس گندگی نے اس خطے کی بنیادی جڑوں پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔ سیاسی اکھاڑے میں دو سانڈوں کی لڑائی کی وجہ سے اکھاڑے کے باہر اس منظر کو دیکھ رہے لوگ غلاظت اور بدبو سے مدہوشی کے عالم میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہماری تعلیم کا حال بھی اکھاڑے کے باہر لوگوں کی طرح ہے۔ ہم بیوقوف لوگ مادیت کے نشے میں چور سیاست کی غلاظت سے اس قدر پیار کرتے ہیں جتنی ایک مصری کی مکھی بھی گندگی سے نہیں کرتی ہے۔ اس رویے نے ہماری تعلیم کو حکومت کی نگاہوں سے دور کرکے کسی فروعی مسئلے پر مرتکز کیا ہے۔ دنیا کے کس حصے میں ایسا ہوتا ہوگا ،جہاں پر طلباء کتابوں سے خالی بستے کو لے کر تعلیم کے نام پر اپنے آپ سے مذاق کر رہے ہوں۔ موجودہ حکومت سے میری ناراضگی اس لئے ہے کیونکہ میں اپنے سماج کے خاطر طلباء کی ضروریات ِتعلیم کو پورا کروانے کی تجویز پر زور دے رہا ہوں۔ مانا کہ براجمان حکومت کی اپنی مصروفیات ہیں، وہ بھی کوششوں میں لگے ہیں کہ طلباء تک کم از کم وقت میں کتابوں کی ترسیل ممکن ہوسکے۔ لیکن حکومت جس وقت تعلیمی سیشن کو تبدیل کرنے کی تجویز پر غور کررہی تھی، تب اُن کے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں آئی تھی کہ کیا یہ ممکن ہے کم سے کم وقت میں سارے طلباء تک کتابوں کو پہنچایا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ جس قوم میں تعلیم کا معیار گھٹ جاتا ہے، وہاں طلباء نظروں سے اوجھل ہوکر وہ پیسے بٹورنے کی مشینیں بنتی ہیں۔ رونا آتا ہے جب پانچویں جماعت کا بچہ دوسری جماعت کی کتاب پڑھنے سے قاصر ہے اور اس پر ستم یہ کہ وہ کتابوں کی عدم دستیابی کا شکار ہے، یہ صورت حال توجگر کو پیٹنے کے علاوہ مسلسل پریشانیوں کے دلدل میں ڈالنے کے لئے بھی کافی ہے۔ ایک عام شہری ہونے کے ناطے میری حکومت سے گزارش ہے کہ کتابوں کی ترسیل میں فوراًوسعت لائی جائے۔ظاہر ہے کہ ایک مہینے سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے جس میں طلباء کتابوں کے بغیر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کے خراب نتیجے نکلنے کے امکانات اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ میں وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم سے پھر سے گزارش کرتا ہوں کہ کتابوں کا طلباء تک پہنچانے کو کا عمل یقینی بنایا جائے۔ آپ سب حضرات تعلیم کے فوائد سے آشنا ہیں۔ اس لیے مجھے قوی امید ہے کہ کم سے کم وقت میں سارے طلباء کے پاس کتابوں کو ہونا حقیقت بن جائے۔ وقت بہت کم ہے اور اگلے امتحان کی تیاریاں بھی ہونے لگی ہیں۔ اب اگر کتابیں ہی میسر نہ ہوں تو ہم سب خود ہی اس کے نتائج سے ناآشنا نہیں ہوسکتے ہیں۔ میں کسی بھی قسم کی گستاخی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]